بلوغ المرام - حدیث 11

کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ الْمِيَاهِ ضعيف وَعَن ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((أُحِلَّتْ لَنَا مَيْتَتَانِ وَدَمَانِ، فَأَمَّا الْمَيْتَتَانِ: فَالْجَرَادُ وَالْحُوتُ، وَأَمَّا الدَّمَانُ: فَالطِّحَالُ وَالْكَبِدُ)). أَخْرَجَهُ أَحْمَدُ، وَابْنُ مَاجَهْ، وَفِيهِ ضَعْفٌ

ترجمہ - حدیث 11

کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل باب: پانی کے احکام ومسائل (مختلف ذرائع سے حاصل شدہ پانی کا بیان) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دو مردار اور دو خون ہمارے لیے حلال کیے گئے ہیں۔ دو مردار (جنھیں ذبح نہ کیا گیا ہو) ٹڈی اور مچھلی ہیں۔ اور دو خون سے مراد جگر اور تلی ہیں۔‘‘ (اسے احمد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور اس میں ضعف ہے۔)
تشریح : 1. مصنف رحمہ اللہ نے اس روایت کو اس باب میں اس لیے ذکر کیا ہے کہ اس پر تنبیہ ہو جائے کہ مچھلی اور ٹڈی جب پانی میں مر جائیں‘ خواہ پانی کی مقدار کم ہو یا زیادہ‘ وہ پانی نجس و ناپاک نہیں ہوتا۔ اس روایت کی سند میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم ہے جو اپنے باپ سے اور وہ آگے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کرتا ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ عبدالرحمن سے مروی حدیث منکر ہے اور صحیح یہ ہے کہ یہ موقوف ہے جیسا کہ امام ابو زرعہ اور ابوحاتم رحمہما اللہ نے کہا ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس حدیث کو زید بن اسلم کی اولاد‘ یعنی عبداللہ‘ عبدالرحمن اور اسامہ نے مرفوع بیان کیا ہے اور ابن معین نے ان سب (زید بن اسلم کی اولاد) کو ضعیف قرار دیا ہے، البتہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ان میں سے عبداللہ کو ثقہ کہتے ہیں۔ 2. گو اس حدیث کا سنداً موقوف ہونا صحیح ہے‘ مگر یہ حکماً مرفوع ہے کیونکہ صحابی کا [أُحِلَّتْ لَنَا] یا [حُرِّمَ عَلَیْنَا] کہنا حکماً مرفوع تسلیم کیا گیا ہے‘ جیسے [أُمِرْنَا] یا [نُھِینَا] کہنا مرفوع کے حکم میں ہے۔ 3. یہ حدیث دلیل ہے کہ ٹڈی بہرصورت حلال ہے‘ خواہ اپنی طبعی موت مرے یا کسی دوسرے سبب سے (اور اس سے مراد وہ ٹڈی نہیں جو عام طور پر گھروں میں ہوتی ہے۔) امام مالک رحمہ اللہ کا فتویٰ ہے کہ اگر ٹڈی آدمی کے پکڑنے یا سر کے کٹنے سے مرے تو حلال ہے بصورت دیگر حرام ہے۔ حدیث مذکور سے امام مالک کے فتوے کی تردید ہوتی ہے۔ یہی حال مچھلی کا ہے‘ خواہ پکڑنے کے بعد مری ہو یا دریائی لہروں نے باہر پھینک دی ہو اور وہ مر گئی ہو‘ دونوں صورتوں میں حلال ہے۔ 4. احناف کے ہاں اگر مچھلی پکڑنے یا دریا کے باہر پھینک دینے اور دیگر کسی سبب سے مری ہو تو حلال ہے اور اگر وہ خود بخود مر جائے یا کسی حیوان کے مارنے سے مرے تو وہ حلال نہیں بلکہ حرام ہے۔ یہ حدیث احناف کے بھی خلاف ہے۔ احناف نے ابوداود کی جس روایت سے استنباط کیا ہے اسے محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے‘ لہٰذا ٹڈی اور مچھلی کی حلت کو کسی شرط سے مشروط کرنا صحیح نہیں ہے۔ 5. اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مچھلی اور ٹڈی دونوں حلال ہیں‘ چاہے خود مر جائیں یا کسی طریقے سے مار دی جائیں‘ دونوں مردار کے عمومی حکم سے خارج ہیں‘ ان کا ذبح کرنا مشروع نہیں ہے۔
تخریج : أخرجه ابن ماجه، الأطعمة، باب الكبدوالطحال، حديث: 3314، وأحمد: 2 / 97 وسنده ضعيف، عبدالرحمن بن زيد بن أسلم ضعيف مشهور، وللحديث طريق آخر موقوف له حكم الرفع، وأخرجه البيهقى:1 /254، وسنده صحيح، وللحديث طريق أخرى. 1. مصنف رحمہ اللہ نے اس روایت کو اس باب میں اس لیے ذکر کیا ہے کہ اس پر تنبیہ ہو جائے کہ مچھلی اور ٹڈی جب پانی میں مر جائیں‘ خواہ پانی کی مقدار کم ہو یا زیادہ‘ وہ پانی نجس و ناپاک نہیں ہوتا۔ اس روایت کی سند میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم ہے جو اپنے باپ سے اور وہ آگے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کرتا ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ عبدالرحمن سے مروی حدیث منکر ہے اور صحیح یہ ہے کہ یہ موقوف ہے جیسا کہ امام ابو زرعہ اور ابوحاتم رحمہما اللہ نے کہا ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس حدیث کو زید بن اسلم کی اولاد‘ یعنی عبداللہ‘ عبدالرحمن اور اسامہ نے مرفوع بیان کیا ہے اور ابن معین نے ان سب (زید بن اسلم کی اولاد) کو ضعیف قرار دیا ہے، البتہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ان میں سے عبداللہ کو ثقہ کہتے ہیں۔ 2. گو اس حدیث کا سنداً موقوف ہونا صحیح ہے‘ مگر یہ حکماً مرفوع ہے کیونکہ صحابی کا [أُحِلَّتْ لَنَا] یا [حُرِّمَ عَلَیْنَا] کہنا حکماً مرفوع تسلیم کیا گیا ہے‘ جیسے [أُمِرْنَا] یا [نُھِینَا] کہنا مرفوع کے حکم میں ہے۔ 3. یہ حدیث دلیل ہے کہ ٹڈی بہرصورت حلال ہے‘ خواہ اپنی طبعی موت مرے یا کسی دوسرے سبب سے (اور اس سے مراد وہ ٹڈی نہیں جو عام طور پر گھروں میں ہوتی ہے۔) امام مالک رحمہ اللہ کا فتویٰ ہے کہ اگر ٹڈی آدمی کے پکڑنے یا سر کے کٹنے سے مرے تو حلال ہے بصورت دیگر حرام ہے۔ حدیث مذکور سے امام مالک کے فتوے کی تردید ہوتی ہے۔ یہی حال مچھلی کا ہے‘ خواہ پکڑنے کے بعد مری ہو یا دریائی لہروں نے باہر پھینک دی ہو اور وہ مر گئی ہو‘ دونوں صورتوں میں حلال ہے۔ 4. احناف کے ہاں اگر مچھلی پکڑنے یا دریا کے باہر پھینک دینے اور دیگر کسی سبب سے مری ہو تو حلال ہے اور اگر وہ خود بخود مر جائے یا کسی حیوان کے مارنے سے مرے تو وہ حلال نہیں بلکہ حرام ہے۔ یہ حدیث احناف کے بھی خلاف ہے۔ احناف نے ابوداود کی جس روایت سے استنباط کیا ہے اسے محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے‘ لہٰذا ٹڈی اور مچھلی کی حلت کو کسی شرط سے مشروط کرنا صحیح نہیں ہے۔ 5. اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مچھلی اور ٹڈی دونوں حلال ہیں‘ چاہے خود مر جائیں یا کسی طریقے سے مار دی جائیں‘ دونوں مردار کے عمومی حکم سے خارج ہیں‘ ان کا ذبح کرنا مشروع نہیں ہے۔