بلوغ المرام - حدیث 1097

كِتَابُ الْجِهَادِ بَابُ الْجِهَادِ صحيح وَعَنْ أَبِي أَيُّوبَ - رضي الله عنه - قَالَ: إِنَّمَا أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فِينَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، يَعْنِي: {وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ} [البقرة: 195] قَالَهُ رَدًّا عَلَى مَنْ أَنْكَرَ عَلَى مَنْ حَمَلَ عَلَى صَفِ الرُّومِ حَتَّى دَخَلَ فِيهِمْ. رَوَاهُ الثَّلَاثَةُ، وَصَحَّحَهُ التِّرْمِذِيُّ، وَابْنُ حِبَّانَ، وَالْحَاكِمُ.

ترجمہ - حدیث 1097

کتاب: جہاد سے متعلق احکام و مسائل باب: جہاد سے متعلق احکام و مسائل حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہ آیت ہم انصار کے حق میں نازل ہوئی: ﴿ وَلاَ تُلْقُوْا بَاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ﴾’’اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔‘‘ یہ حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کی تردید میں فرمایا تھا جنھوں نے اس شخص کو برا جانا جس نے رومیوں کے لشکر پر حملہ کیا حتیٰ کہ ان کے بیچ میں جا گھسا۔ (اسے تینوں نے روایت کیا ہے۔ اور ترمذی‘ ابن حبان اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔)
تشریح : اس واقعہ کی تفصیل یوں ہے کہ اسلم بن یزید ابو عمران بیان کرتے ہیں کہ ہم قسطنطنیہ میں تھے کہ رومیوں کا ایک بڑا فوجی لشکر ہمارے مقابلے کے لیے سامنے آیا تو مسلمانوں میں سے ایک مجاہد نے ان پر حملہ کر دیا حتیٰ کہ ان کے بیچ میں سے واپس آیا‘ پھر دوبارہ پلٹ کر گیا تو لوگ چیخنے لگے: سبحان اللہ ! اس نے اپنے آپ کو ہلاکت کے منہ میں ڈال دیا ہے۔ اس موقع پر حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگو! تم اس آیت کی یہ تاویل کر رہے ہو حالانکہ یہ آیت ہمارے متعلق‘ یعنی گروہ انصار کے بارے میں نازل ہوئی ہے: جب اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو غلبہ بخشا اور اس کے مددگاروں کی تعداد کثیر ہوگئی تو ہم آپس میں ایک دوسرے سے خفیہ طور پر یہ کہنے لگے کہ ہمارے اموال (گھر بار‘ مویشی اور باغات ) تو ضائع ہوگئے‘ اگر ہم اپنے مالوں میں ٹھہرے رہتے اور ان کی دیکھ بھال رکھتے تو ان میں سے کچھ بھی ضائع نہ ہوتا۔ تو اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ چنانچہ اس ہلاکت سے مراد ہمارا اپنے گھروں میں بیٹھ رہنا تھا جس کا ہم ارادہ کررہے تھے۔ (سبل السلام)
تخریج : أخرجه أبوداود، الجهاد، باب في قوله تعالى: ﴿ولا تلقوا بأ يديكم إلى التهلكة﴾، حديث:2512، والترمذي، تفسير القرآن، حديث:2972، والحاكم:2 /275، وابن حبان (ابن بلبان):11 /4711. اس واقعہ کی تفصیل یوں ہے کہ اسلم بن یزید ابو عمران بیان کرتے ہیں کہ ہم قسطنطنیہ میں تھے کہ رومیوں کا ایک بڑا فوجی لشکر ہمارے مقابلے کے لیے سامنے آیا تو مسلمانوں میں سے ایک مجاہد نے ان پر حملہ کر دیا حتیٰ کہ ان کے بیچ میں سے واپس آیا‘ پھر دوبارہ پلٹ کر گیا تو لوگ چیخنے لگے: سبحان اللہ ! اس نے اپنے آپ کو ہلاکت کے منہ میں ڈال دیا ہے۔ اس موقع پر حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگو! تم اس آیت کی یہ تاویل کر رہے ہو حالانکہ یہ آیت ہمارے متعلق‘ یعنی گروہ انصار کے بارے میں نازل ہوئی ہے: جب اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کو غلبہ بخشا اور اس کے مددگاروں کی تعداد کثیر ہوگئی تو ہم آپس میں ایک دوسرے سے خفیہ طور پر یہ کہنے لگے کہ ہمارے اموال (گھر بار‘ مویشی اور باغات ) تو ضائع ہوگئے‘ اگر ہم اپنے مالوں میں ٹھہرے رہتے اور ان کی دیکھ بھال رکھتے تو ان میں سے کچھ بھی ضائع نہ ہوتا۔ تو اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ چنانچہ اس ہلاکت سے مراد ہمارا اپنے گھروں میں بیٹھ رہنا تھا جس کا ہم ارادہ کررہے تھے۔ (سبل السلام)