كِتَابُ الْجِهَادِ بَابُ الْجِهَادِ صحيح وَعَنْ مَعْقِلٍ أَنَّ النُّعْمَانَ بْنَ مُقَرِّنٍ قَالَ: شَهِدْتُ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - إِذَا لَمْ يُقَاتِلْ أَوَّلَ النَّهَارِ أَخَّرَ الْقِتَالِ حَتَّى تَزُولَ الشَّمْسُ، وَتَهُبَّ الرِّيَاحُ، وَيَنْزِلَ النَّصْرُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالثَّلَاثَةُ، وَصَحَّحَهُ الْحَاكِمُ. وَأَصْلُهُ فِي الْبُخَارِيِّ.
کتاب: جہاد سے متعلق احکام و مسائل
باب: جہاد سے متعلق احکام و مسائل
حضرت معقل سے روایت ہے کہ حضرت نعمان بن مقرِّن رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لڑائیوں میں شریک ہوا ہوں۔ جب آپ دن کے آغاز میں لڑائی شروع نہ کرتے تو پھر لڑائی کو مؤخر کر دیتے یہاں تک کہ آفتاب ڈھل جاتا‘ موافق ہوائیں چلتیں اور مدد نازل ہوتی۔ (اسے احمد اور تینوں نے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح کہا ہے اور اس کی اصل بخاری میں ہے۔)
تشریح :
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جنگ کا آغاز علی الصبح کرنا چاہیے، اگر کچھ دیر ہو جائے تو پھر سورج ڈھلنے کا انتظار کرنا چاہیے، لیکن یہ اس وقت ہے جب لڑائی کا آغاز مسلمانوں کی طرف سے ہونا ہو۔ راوئ حدیث: [حضرت نعمان بن مقرِّن رضی اللہ عنہ ] مزن قبیلے کی طرف نسبت کی وجہ سے مزنی کہلائے۔ سیدنا صدیق و فاروق رضی اللہ عنہما کے عہد خلافت میں لشکر کے امیروں میں ایک یہ بھی ہوتے تھے۔ انھوں نے اپنے سات دوسرے بھائیوں کے ساتھ ہجرت کی۔ اصبہان کے فاتح ہیں۔ ۲۱ ہجری میں نہاوند کے معرکہ میں شہید ہوئے۔ (مقرن کے ’’را‘‘ پر تشدید اور کسرہ ہے۔ محدث کے وزن پر۔)
تخریج :
أخرجه أبوداود، الجهاد، باب في أي وقت يستحب اللقاء، حديث:2655، والترمذي، السير، حديث:1612، 1613، والحاكم:2 /116، وأحمد:5 /444، 445، والنسائي في الكبرٰى:5 /191، حديث:8637، والبخاري، الجزية والموادعة، حديث:3160.
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جنگ کا آغاز علی الصبح کرنا چاہیے، اگر کچھ دیر ہو جائے تو پھر سورج ڈھلنے کا انتظار کرنا چاہیے، لیکن یہ اس وقت ہے جب لڑائی کا آغاز مسلمانوں کی طرف سے ہونا ہو۔ راوئ حدیث: [حضرت نعمان بن مقرِّن رضی اللہ عنہ ] مزن قبیلے کی طرف نسبت کی وجہ سے مزنی کہلائے۔ سیدنا صدیق و فاروق رضی اللہ عنہما کے عہد خلافت میں لشکر کے امیروں میں ایک یہ بھی ہوتے تھے۔ انھوں نے اپنے سات دوسرے بھائیوں کے ساتھ ہجرت کی۔ اصبہان کے فاتح ہیں۔ ۲۱ ہجری میں نہاوند کے معرکہ میں شہید ہوئے۔ (مقرن کے ’’را‘‘ پر تشدید اور کسرہ ہے۔ محدث کے وزن پر۔)