بلوغ المرام - حدیث 109

کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ التَّيَمُّمِ صحيح عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا; أَنَّ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: ((أُعْطِيتُ خَمْسًا لَمْ يُعْطَهُنَّ أَحَدٌ قَبْلِي: نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ، وَجُعِلَتْ لِي الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا، فَأَيُّمَا رَجُلٍ أَدْرَكَتْهُ الصَّلَاةُ فَلْيُصَلِّ)). وَذَكَرَ الْحَدِيثَ. وَفِي حَدِيثِ حُذَيْفَةَ عِنْدَ مُسْلِمٍ: ((وَجُعِلَتْ تُرْبَتُهَا لَنَا طَهُورًا، إِذَا لَمْ نَجِدِ الْمَاءَ)). وَعَنْ عَلِيٍّ - رضي الله عنه - عِنْدَ أَحْمَدَ: ((وَجُعِلَ التُّرَابُ لِي طَهُورًا)).

ترجمہ - حدیث 109

کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل باب: تیمم کے احکام ومسائل حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے پانچ ایسی چیزیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو بھی نہیں دی گئیں: مجھے ایک مہینے کی مسافت سے (دشمن پر) رعب و دبدبے سے مدد دی گئی ہے۔ اور ساری زمین میرے لیے سجدہ گاہ اور طہارت و پاکیزگی کا ذریعہ بنائی گئی ہے۔ اب جس آدمی کو (جہاں بھی) نماز کا وقت آجائے اسے نماز پڑھ لینی چاہیے۔‘‘ اور راوی نے آگے پوری حدیث ذکر کی۔مسلم میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ’’جب ہمیں پانی دستیاب نہ ہو تو زمین کی مٹی ہمارے لیے پاک کرنے والی بنا دی گئی ہے۔‘‘ مسند احمد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے: ’’مٹی میرے لیے حصول طہارت کا ذریعہ بنائی گئی ہے۔‘‘
تشریح : 1. اس حدیث میں سے مصنف نے بالخصوص آپ کو عطا کیے جانے والے دو امتیازات و خصائص کا ذکر کیا ہے اور باقی تین یہ ہیں: غنائم کا حلال کیا جانا‘ یعنی دوران جنگ میں دشمن سے جو اموال افواج اسلام کے قبضے میں آئیں وہ آپ کے لیے اور امت مسلمہ کے لیے حلال کیے گئے ہیں۔ نیز شفاعت کبریٰ بھی آپ ہی فرمائیں گے، یہ امتیاز بھی صرف آپ ہی کا ہے، تاکہ روز محشر کی تکلیف سے لوگوں کو آرام و سکون اور راحت نصیب ہو۔ اور روئے ارض کے تمام انسانوں اور جنوں کے لیے آپ کو نبی بنا کر مبعوث کیا گیا ہے۔ 2.مصنف رحمہ اللہ نے یہاں آخری تین امتیازات کو حذف کردیا ہے اور انھی کے ذکر پر اکتفا کیا ہے جن کا تعلق طہارت اور نماز سے ہے۔ 3. پانی کے دستیاب نہ ہونے کی صورت میں شریعت اسلامیہ نے تیمم کی سہولت بہم پہنچا کر امت مسلمہ کے لیے بہت بڑی آسانی پیدا کر دی ہے۔ مٹی سے تیمم جائز ہے‘ البتہ زمین سے نکلنے والی دوسری اشیاء سے تیمم جائز ہے یا نہیں‘ اس کے متعلق فقہاء میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ احتیاط اسی میں ہے کہ زمین سے نکلنے والی اشیاء پر مٹی‘ غبار ہو تو تیمم جائز ہے ورنہ نہیں۔
تخریج : أخرجه البخاري، التيمم، باب(1)، حديث:335، ومسلم، المساجد، باب المساجد ومواضع الصلاة، حديث:521، [وحديث حذيفة، المساجد، باب المساجد و مواضع الصلاة، حديث:522]* وحديث علي أخرجه أحمد:1 / 98 وهو حديث حسن صحيح. 1. اس حدیث میں سے مصنف نے بالخصوص آپ کو عطا کیے جانے والے دو امتیازات و خصائص کا ذکر کیا ہے اور باقی تین یہ ہیں: غنائم کا حلال کیا جانا‘ یعنی دوران جنگ میں دشمن سے جو اموال افواج اسلام کے قبضے میں آئیں وہ آپ کے لیے اور امت مسلمہ کے لیے حلال کیے گئے ہیں۔ نیز شفاعت کبریٰ بھی آپ ہی فرمائیں گے، یہ امتیاز بھی صرف آپ ہی کا ہے، تاکہ روز محشر کی تکلیف سے لوگوں کو آرام و سکون اور راحت نصیب ہو۔ اور روئے ارض کے تمام انسانوں اور جنوں کے لیے آپ کو نبی بنا کر مبعوث کیا گیا ہے۔ 2.مصنف رحمہ اللہ نے یہاں آخری تین امتیازات کو حذف کردیا ہے اور انھی کے ذکر پر اکتفا کیا ہے جن کا تعلق طہارت اور نماز سے ہے۔ 3. پانی کے دستیاب نہ ہونے کی صورت میں شریعت اسلامیہ نے تیمم کی سہولت بہم پہنچا کر امت مسلمہ کے لیے بہت بڑی آسانی پیدا کر دی ہے۔ مٹی سے تیمم جائز ہے‘ البتہ زمین سے نکلنے والی دوسری اشیاء سے تیمم جائز ہے یا نہیں‘ اس کے متعلق فقہاء میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ احتیاط اسی میں ہے کہ زمین سے نکلنے والی اشیاء پر مٹی‘ غبار ہو تو تیمم جائز ہے ورنہ نہیں۔