بلوغ المرام - حدیث 1089

كِتَابُ الْجِهَادِ بَابُ الْجِهَادِ صحيح وَعَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - إِذَا أَمَّرَ أَمِيرًا عَلَى جَيْشٍ أَوْصَاهُ بِتَقْوَى اللَّهِ، وَبِمَنْ مَعَهُ مِنْ الْمُسْلِمِينَ خَيْرًا، ثُمَّ قَالَ: ((اغْزُوا بِسْمِ اللَّهِ، فِي سَبِيلِ اللَّهِ، قَاتِلُوا مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ، اغْزُوا، وَلَا تَغُلُّوا، وَلَا تَغْدُرُوا، وَلَا تُمَثِّلُوا، وَلَا تَقْتُلُوا وَلِيدًا، وَإِذَا لَقِيتَ عَدُوَّكَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ فَادْعُهُمْ إِلَى ثَلَاثِ خِصَالٍ، فَأَيَّتُهُنَّ أَجَابُوكَ إِلَيْهَا، فَاقْبَلْ مِنْهُمْ، وَكُفَّ عَنْهُمْ:ادْعُهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ فَإِنْ أَجَابُوكَ فَاقْبَلْ مِنْهُمْ.ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى التَّحَوُّلِ مِنْ دَارِهِمْ إِلَى دَارِ الْمُهَاجِرِينَ، فَإِنْ أَبَوْا فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّهُمْ يَكُونُونَ كَأَعْرَابِ الْمُسْلِمِينَ، وَلَا يَكُونُ لَهُمْ فِي الْغَنِيمَةِ وَالْفَيْءِ شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يُجَاهِدُوا مَعَ الْمُسْلِمِينَ. فَإِنْ هُمْ أَبَوْا فَاسْأَلْهُمْ الْجِزْيَةَ، فَإِنْ هُمْ أَجَابُوكَ فَاقْبَلْ مِنْهُمْ، فَإِنْ أَبَوْا فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ وَقَاتِلْهُمْ. وَإِذَا حَاصَرْتَ أَهْلَ حِصْنٍ فَأَرَادُوكَ أَنْ تَجْعَلَ لَهُمْ ذِمَّةَ اللَّهِ وَذِمَّةَ نَبِيِّهِ، فَلَا تَفْعَلْ، وَلَكِنِ اجْعَلْ لَهُمْ ذِمَّتَكَ; فَإِنَّكُمْ إِنْ تُخْفِرُوا ذِمَمَكُمْ أَهْوَنُ مِنْ أَنَّ تُخْفِرُوا ذِمَّةَ اللَّهِ، وَإِذَا أَرَادُوكَ أَنْ تُنْزِلَهُمْ عَلَى حُكْمِ اللَّهِ، فَلَا تَفْعَلْ، بَلْ عَلَى حُكْمِكَ; فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي أَتُصِيبُ فِيهِمْ حُكْمَ اللَّهِ أَمْ لَا)). أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ.

ترجمہ - حدیث 1089

کتاب: جہاد سے متعلق احکام و مسائل باب: جہاد سے متعلق احکام و مسائل حضرت سلیمان بن بُرَیدہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی لشکر یا سریہ کا امیر مقرر فرماتے تو اسے خود اپنے بارے میں اللہ کے تقویٰ اور اپنے مسلمان ساتھیوں کے بارے میں بھلائی اور خیر کی نصیحت فرماتے۔ اس کے بعد فرماتے: ’’اللہ کے نام کے ساتھ‘ اس کے راستے میں جہاد کرو۔ ان لوگوں سے جو اللہ کے منکر و کافر ہیں‘ لڑائی کرو۔ جہاد کرو لیکن خیانت نہ کرنا‘ عہد شکنی نہ کرنا‘ مثلہ نہ کرنااور بچوں کو قتل نہ کرنا۔ اور جب مشرک دشمن سے تمھارا سامنا ہو تو انھیں تین چیزوں کی دعوت پیش کرو۔ ان میں سے تمھاری جس بات کو وہ قبول کر لیں ‘تم اسے قبول کر لو اور ان سے اپنے ہاتھ روک لو۔ پہلے انھیں اسلام کی دعوت پیش کرو۔ اگر وہ تمھاری بات کو تسلیم کر لیں تو اسے قبول کر لو اور ان سے اپنے ہاتھ روک لو‘ پھر ان کو دعوت دو کہ وہ اپنے گھر بار چھوڑ کر مہاجرین کے ملک (دارالاسلام) کی طرف ہجرت کر کے آجائیں۔ اور انھیں بتا دو کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو ان کے لیے (مال غنیمت و فے وغیرہ میں سے) وہی کچھ ہو گا جو (پہلے) مہاجرین کے لیے ہے اور ان پر وہی احکام لاگو ہوں گے جو مہاجرین پر لاگو ہوتے ہیں۔ اگر وہ ہجرت سے انکار کریں تو انھیں بتا دو کہ وہ بدوی مسلمانوں کی طرح ہوں گے۔ ان پراللہ کا وہی حکم نافذ ہو گا جو عام مومنوں پر نافذ ہے اور انھیں مال غنیمت اور اموال فے میں سے کچھ بھی نہیں ملے گا الّا یہ کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر جہاد میں شریک ہوں۔ اگر وہ (اسلام قبول کرنے سے) انکار کریں تو ان سے جزیے کا مطالبہ کرو۔ اگر وہ تمھاری اس بات کو تسلیم کر لیں تو تم ان کی یہ بات قبول کر لو اور ان سے اپنے ہاتھ روک لو۔ اگر وہ (جزیہ دینے سے بھی) انکار کریں تو اللہ سے مدد طلب کرو اور ان سے لڑائی شروع کردو۔ اور جب تم کسی قلعہ والوں کا محاصرہ کر لو اور وہ تم سے مطالبہ کریں کہ تم انھیں اللہ اور اس کے نبی کی طرف سے امان کا عہد دو تو ایسا نہ کرنا بلکہ تم انھیں اپنی اور اپنے ساتھیوں کی جانب سے امان کا عہد دے دینا‘ اس لیے کہ تمھارا اپنے اور اپنے ساتھیوں کے عہد کو توڑنا اللہ اور اس کے رسول کے عہد کو توڑنے سے بہت خفیف اور ہلکا ہے۔ اور جب آپ کسی قلعے والوں کا محاصرہ کریں اور وہ تم سے یہ مطالبہ کریں کہ تم انھیں اللہ کے فیصلے پر ہتھیار ڈالنے دو تو ایسا نہ کرنا بلکہ اپنے فیصلے پر ہتھیار ڈالنے دینا کیونکہ تمھیں علم نہیں کہ تم ان کے بارے میں اللہ کے فیصلے کو پہنچتے ہو یا نہیں۔‘‘ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔)
تشریح : یہ حدیث جہاد کے بڑے معتبر اصولوں پر مشتمل ہے جو معمولی سے غور و تامل سے واضح ہو جاتے ہیں جبکہ اصول جہاد کی بابت فقہاء کے مابین طویل و عریض اختلاف ہے۔ لیکن تفصیل اور طویل بحث میں جانے کی بجائے نصوص کو علی الاطلاق لینا بحث و مباحثہ کی طرف جھکاؤ سے کہیں بہتر اور مناسب ہے۔
تخریج : أخرجه مسلم، الجهاد والسير، باب تأمير الإمام الأمراء على البعوث...، حديث:1731. یہ حدیث جہاد کے بڑے معتبر اصولوں پر مشتمل ہے جو معمولی سے غور و تامل سے واضح ہو جاتے ہیں جبکہ اصول جہاد کی بابت فقہاء کے مابین طویل و عریض اختلاف ہے۔ لیکن تفصیل اور طویل بحث میں جانے کی بجائے نصوص کو علی الاطلاق لینا بحث و مباحثہ کی طرف جھکاؤ سے کہیں بہتر اور مناسب ہے۔