كِتَابُ الْحُدُودِ بَاب التَّعْزِيرِ وَحُكْمِ الصَّائِلِ صحيح وَعَنْ عَلِيٍّ - رضي الله عنه - قَالَ: مَا كُنْتُ لِأُقِيمَ عَلَى أَحَدٍ حَدًّا، فَيَمُوتُ، فَأَجِدُ فِي نَفْسِي، إِلَّا شَارِبَ الْخَمْرِ; فَإِنَّهُ لَوْ مَاتَ وَدَيْتُهُ. أَخْرَجَهُ الْبُخَارِيُّ.
کتاب: حدود سے متعلق احکام و مسائل
باب: تعزیر کا بیان اور حملہ آور (ڈاکو) کا حکم
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ انھوں نے فرمایا: کوئی شخص ایسا نہیں ہے کہ میں اس پر حد قائم کروں اور وہ مر جائے تو مجھے اس کا افسوس ہو‘ سوائے شرابی کے۔ چنانچہ اگر وہ مر جائے تو میں اس کی دیت ادا کروں گا۔ (اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔)
تشریح :
1. حضرت علی رضی اللہ عنہ نے شرابی کے سزا میں مر جانے کی صورت میں دیت کا جو فرمایا ہے‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرابی کی سزا مقرر نہیں فرمائی‘ اس لیے شرابی کا سزا سے مر جانا قتل خطا کے زمرے میں آجاتا ہے اور قتل خطا میں دیت دینا لازم ہے۔ 2.جمہور علماء کا بھی یہی خیال ہے کہ تعزیر کی صورت میں وہ شخص مر جائے تو سربراہ مملکت پر اس کی دیت ادا کرنا ضروری ہے۔
تخریج :
أخرجه البخاري، الحدود، باب الضرب بالجريد والنعال، حديث:6778، واللفظ له ، ومسلم، الحدود، باب حد الخمر، حديث:1707.
1. حضرت علی رضی اللہ عنہ نے شرابی کے سزا میں مر جانے کی صورت میں دیت کا جو فرمایا ہے‘ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرابی کی سزا مقرر نہیں فرمائی‘ اس لیے شرابی کا سزا سے مر جانا قتل خطا کے زمرے میں آجاتا ہے اور قتل خطا میں دیت دینا لازم ہے۔ 2.جمہور علماء کا بھی یہی خیال ہے کہ تعزیر کی صورت میں وہ شخص مر جائے تو سربراہ مملکت پر اس کی دیت ادا کرنا ضروری ہے۔