بلوغ المرام - حدیث 1064

كِتَابُ الْحُدُودِ بَابُ حَدِّ الشَّارِبِ وَبَيَانِ الْمُسْكِرِ صحيح عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ - رضي الله عنه: أَنَّ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - أَتَى بِرَجُلٍ قَدْ شَرِبَ الْخَمْرَ، فَجَلَدَهُ بِجَرِيدَتَيْنِ نَحْوَ أَرْبَعِينَ. قَالَ: وَفَعَلَهُ أَبُو بَكْرٍ، فَلَمَّا كَانَ عُمَرُ اسْتَشَارَ النَّاسَ، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ: أَخَفَّ الْحُدُودِ ثَمَانُونَ، فَأَمَرَ بِهِ عُمَرُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَلِمُسْلِمٍ: عَنْ عَلِيٍّ - رضي الله عنه - فِي قِصَّةِ الْوَلِيدِ بْنِ عَقَبَةَ - جَلَدَ النَّبِيُّ - صلى الله عليه وسلم - أَرْبَعِينَ، وَأَبُو بَكْرٍ أَرْبَعِينَ، وَعُمَرُ ثَمَانِينَ، وَكُلٌّ سُنَّةٌ، وَهَذَا أَحَبُّ - إِلَيَّ. وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ: أَنَّ رَجُلًا شَهِدَ عَلَيْهِ أَنَّهُ رَآهُ يَتَقَيَّأْ الْخَمْرَ، فَقَالَ عُثْمَانُ: إِنَّهُ لَمْ يَتَقَيَّأْهَا حَتَّى شَرِبَهَا.

ترجمہ - حدیث 1064

کتاب: حدود سے متعلق احکام و مسائل باب: شراب پینے والے کی حد اور نشہ آور چیزوں کا بیان حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی لایا گیا جس نے شراب پی ہوئی تھی۔ آپ نے اسے دو چھڑیوں سے چالیس (۴۰) کے لگ بھگ کوڑے لگوائے ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی یہ سزا دی۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دور خلافت آیا تو انھوں نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہلکی ترین سزا اسی (۸۰) کوڑے ہیں‘ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسی کا حکم صادر فرمایا۔(بخاری و مسلم) اور مسلم میں ولید بن عقبہ کے واقعہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (شرابی کو) چالیس (۴۰) اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے چالیس (۴۰) اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اَسّی (۸۰) کوڑے سزا دی اور ان میں سے ہر ایک سنت ہے اور یہ مجھے زیادہ محبوب ہے۔ اور اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ ایک آدمی نے ولید کے خلاف شہادت دی کہ اس نے ولید کو شراب کی قے کرتے دیکھا ہے۔ اس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس نے شراب پی تھی تو قے کی ہے۔
تشریح : 1. یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مسعود میں شراب نوشی کی حد متعین نہیں تھی جیسا کہ دیگر حدود مقرر و متعین تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ لیا اور ایک مقررہ حد‘ یعنی اَسّی (۸۰) کوڑے متعین کر دیے کیونکہ بعض اطراف و نواحی میں لوگ شراب نوشی میں کچھ زیادہ منہمک ہوگئے تھے اور اس کی سزا کو بے وزن و حقیر سمجھتے تھے جیسا کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی جانب ارسال شدہ تحریر سے ثابت ہے۔ فقہاء کے درمیان اس کی حد کے بارے میں اختلاف رہا ہے کہ وہ چالیس کوڑے ہیں یا اسی؟ مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کو اخذ کرنا زیادہ مناسب اور اولیٰ ہے۔ 2. حضرت ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ان پر شراب نوشی کا الزام لگا۔ حمران اور ایک دوسرے آدمی نے ان کے خلاف گواہی دی۔ ان میں سے ایک نے تو یہ گواہی دی کہ میں نے انھیں شراب پیتے دیکھا ہے اور دوسرے نے یہ گواہی دی کہ میں نے انھیں شراب کی قے کرتے دیکھا ہے۔ اس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب تک شراب پی نہ ہو اس وقت تک قے کیسے کر سکتا ہے؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بحیثیت خلیفہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ان پر حد لگائیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم اس پر حد لگاؤ۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے کہا جو اس کی سردی کا والی ہوا وہی اس کی گرمی کا بھی والی بنے‘ یعنی جو آدمی خلافت کی نرمی اور لذت سے لطف اندوز ہوا ہے وہی اس کی شدت اور کڑوی صورت کو بھی اختیار کرے۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے اعزاء و اقرباء میری نسبت زیادہ ولایت و اختصاص رکھتے ہیں تو پھر انھیں ہی خلافت کی بری بھلی اور تلخ و شیریں باتوں اور حالات سے نپٹنا چاہیے اور جلاد کی ذمہ داری نبھانی چاہیے‘ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم انھیں حد لگاؤ۔ انھوں نے کوڑا پکڑا اور مارنا شروع کر دیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ شمار کرتے جاتے تھے۔ جب وہ چالیس پر پہنچے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بس! کافی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس (کوڑے) ہی لگائے تھے…الخ ۔ 3. صاحب سبل السلام فرماتے ہیں :مصنف (حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ) نے صرف‘ شراب کی قے کرنے کی گواہی دینے والے کا ذکر کیا ہے (حمر ان کی گواہی کا ذکر نہیں کیا۔) یہ مصنف کی کوتاہی ہے کیونکہ اس سے یہ وہم پڑتا ہے کہ شاید ولید بن عقبہ کو صرف ایک گواہی کی بنا پر کوڑے لگائے گئے تھے‘ حالانکہ حمران کی گواہی بھی تھی کہ اس نے انھیں شراب پیتے دیکھا ہے۔ وضاحت: [حضرت ولید بن عقبہ بن ابی معیط رضی اللہ عنہ ] قریشی تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مادری بھائی تھے۔ فتح مکہ کے روز مسلمان ہوئے۔ قریش کے ظریف‘ حلیم‘ بہادر اور ادیب لوگوں میں سے تھے۔ فطری شعراء میں سے تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انھیں کوفہ کا گورنر بنا دیا۔ پھر شراب نوشی کے الزام پر انھیں اس منصب سے معزول کر دیا۔ شہادتِ عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد فتنے سے الگ تھلگ ہو کر بیٹھ گئے۔ رقہ میں مقیم ہوئے اور وہیں وفات پائی اور بلیخ میں دفن ہوئے۔
تخریج : أخرجه البخاري، الحدود، باب ما جاء في ضرب شارب الخمر، حديث:6773، ومسلم، الحدود، باب حد الخمر، حديث:1706، وحديث علي رضي الله عنه: أخرجه مسلم، الحدود، حديث:1707. 1. یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مسعود میں شراب نوشی کی حد متعین نہیں تھی جیسا کہ دیگر حدود مقرر و متعین تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ لیا اور ایک مقررہ حد‘ یعنی اَسّی (۸۰) کوڑے متعین کر دیے کیونکہ بعض اطراف و نواحی میں لوگ شراب نوشی میں کچھ زیادہ منہمک ہوگئے تھے اور اس کی سزا کو بے وزن و حقیر سمجھتے تھے جیسا کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی جانب ارسال شدہ تحریر سے ثابت ہے۔ فقہاء کے درمیان اس کی حد کے بارے میں اختلاف رہا ہے کہ وہ چالیس کوڑے ہیں یا اسی؟ مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کو اخذ کرنا زیادہ مناسب اور اولیٰ ہے۔ 2. حضرت ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ان پر شراب نوشی کا الزام لگا۔ حمران اور ایک دوسرے آدمی نے ان کے خلاف گواہی دی۔ ان میں سے ایک نے تو یہ گواہی دی کہ میں نے انھیں شراب پیتے دیکھا ہے اور دوسرے نے یہ گواہی دی کہ میں نے انھیں شراب کی قے کرتے دیکھا ہے۔ اس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب تک شراب پی نہ ہو اس وقت تک قے کیسے کر سکتا ہے؟ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بحیثیت خلیفہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ان پر حد لگائیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم اس پر حد لگاؤ۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے کہا جو اس کی سردی کا والی ہوا وہی اس کی گرمی کا بھی والی بنے‘ یعنی جو آدمی خلافت کی نرمی اور لذت سے لطف اندوز ہوا ہے وہی اس کی شدت اور کڑوی صورت کو بھی اختیار کرے۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے اعزاء و اقرباء میری نسبت زیادہ ولایت و اختصاص رکھتے ہیں تو پھر انھیں ہی خلافت کی بری بھلی اور تلخ و شیریں باتوں اور حالات سے نپٹنا چاہیے اور جلاد کی ذمہ داری نبھانی چاہیے‘ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم انھیں حد لگاؤ۔ انھوں نے کوڑا پکڑا اور مارنا شروع کر دیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ شمار کرتے جاتے تھے۔ جب وہ چالیس پر پہنچے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بس! کافی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس (کوڑے) ہی لگائے تھے…الخ ۔ 3. صاحب سبل السلام فرماتے ہیں :مصنف (حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ) نے صرف‘ شراب کی قے کرنے کی گواہی دینے والے کا ذکر کیا ہے (حمر ان کی گواہی کا ذکر نہیں کیا۔) یہ مصنف کی کوتاہی ہے کیونکہ اس سے یہ وہم پڑتا ہے کہ شاید ولید بن عقبہ کو صرف ایک گواہی کی بنا پر کوڑے لگائے گئے تھے‘ حالانکہ حمران کی گواہی بھی تھی کہ اس نے انھیں شراب پیتے دیکھا ہے۔ وضاحت: [حضرت ولید بن عقبہ بن ابی معیط رضی اللہ عنہ ] قریشی تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مادری بھائی تھے۔ فتح مکہ کے روز مسلمان ہوئے۔ قریش کے ظریف‘ حلیم‘ بہادر اور ادیب لوگوں میں سے تھے۔ فطری شعراء میں سے تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انھیں کوفہ کا گورنر بنا دیا۔ پھر شراب نوشی کے الزام پر انھیں اس منصب سے معزول کر دیا۔ شہادتِ عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد فتنے سے الگ تھلگ ہو کر بیٹھ گئے۔ رقہ میں مقیم ہوئے اور وہیں وفات پائی اور بلیخ میں دفن ہوئے۔