كِتَابُ الْحُدُودِ بَابُ حَدِّ السَّرِقَةِ حسن وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: جِيءَ بِسَارِقٍ إِلَى النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - فَقَالَ: ((اقْتُلُوهُ)). فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّمَا سَرَقَ. قَالَ: ((اقْطَعُوهُ)) فَقَطَعَ، ثُمَّ جِيءَ بِهِ الثَّانِيَةِ، فَقَالَ ((اقْتُلُوهُ)) فَذَكَرَ مِثْلَهُ، ثُمَّ جِيءَ بِهِ الرَّابِعَةِ كَذَلِكَ، ثُمَّ جِيءَ بِهِ الْخَامِسَةِ فَقَالَ: ((اُقْتُلُوهُ)). أَخْرَجَهُ أَبُو دَاوُدَ، وَالنِّسَائِيُّ، وَاسْتَنْكَرَهُ. وَأَخْرُجَ مِنْ حَدِيثِ الْحَارِثِ بْنِ حَاطِبٍ نَحْوَهُ. وَذَكَرَ الشَّافِعِيُّ أَنَّ الْقَتْلَ فِي الْخَامِسَةِ مَنْسُوخٌ.
کتاب: حدود سے متعلق احکام و مسائل
باب: چوری کی حد کا بیان
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک چور لایا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’اسے قتل کردو۔‘‘ لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول !اس نے تو چوری کی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’ اس کا ہاتھ کاٹ دو۔‘‘ چنانچہ اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ پھر اسے دوبارہ پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’اسے مار ڈالو۔‘‘ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے پہلے کی طرح ذکر کیا۔ پھر اسے تیسری بار لایا گیا تو پھر اسی طرح ذکر کیا۔ پھر اسی طرح چوتھی مرتبہ گرفتار کر کے پیش کیا گیا ۔ پھر پانچویں مرتبہ گرفتار کر کے پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’اسے قتل کر دو۔‘‘ (اسے ابوداود اور نسائی نے روایت کیا ہے اور نسائی نے اسے منکر قرار دیا ہے اور حارث بن حاطب کے حوالے سے اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ اور امام شافعی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ پانچویں مرتبہ مار ڈالنا منسوخ ہے۔)
تشریح :
علمائے کرام اس سزا کی (یہ) توجیہ بیان کرتے ہیں کہ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی حقیقت سے مطلع کر دیا گیا تھا اسی لیے آپ شروع ہی سے اسے قتل کرنے کا کہتے رہے کہ یہ زمین میں فساد پھیلانے والا ہے اور ایسے آدمیوں کی یہی سزا ہوتی ہے۔ قرآن مقدس میں ارشاد باری ہے: ﴿ اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّـلُوْآ اَوْ یُصَلَّبُوْآ اَوْتُقَطَّعَ اَیْدِیْھِمْ وَاَرْجُلُھُمْ مِّنْ خِلاَفٍ أَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ﴾ (المآئدۃ۵:۳۳) ’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑیں اور زمین میں فساد کرتے پھریں ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کر دیے جائیں یا سولی چڑھا دیے جائیں یا مخالف جانب سے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے جائیں یا انھیں جلا وطن کر دیا جائے۔‘‘ اور ظاہر ہے کہ کوئی بھی قاضی یا حاکم دو تین چوریوں پر اس قدر شدید حکم نہیں لگا سکتا ۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا معجزہ تھا کہ آپ نے ابتدا ہی سے اس کی سرشت اور عاقبت کے بارے میں خبر دے دی۔ واللّٰہ أعلم۔ راوئ حدیث: [حضرت حارث بن حاطب جمحی قرشی رحمہ اللہ ] حبشہ میں پیدا ہوئے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی طرف سے مکہ میں ۶۶ ہجری میں والی مقرر ہوئے اور چھ سال ان کی امارت کے تحت کام کیا۔ مروان کی امارت مدینہ کے دوران میں ان کے ساتھ بھی کافی تعاون کیا۔
تخریج :
أخرجه أبوداود، الحدود، باب في السارق يسرق مرارًا، حديث:4410، والنسائي، قطع السارق، حديث:4981، وحديث الحارث بن حاطب: أخرجه النسائي، قطع السارق، حديث:4980، وسنده صحيح.
علمائے کرام اس سزا کی (یہ) توجیہ بیان کرتے ہیں کہ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی حقیقت سے مطلع کر دیا گیا تھا اسی لیے آپ شروع ہی سے اسے قتل کرنے کا کہتے رہے کہ یہ زمین میں فساد پھیلانے والا ہے اور ایسے آدمیوں کی یہی سزا ہوتی ہے۔ قرآن مقدس میں ارشاد باری ہے: ﴿ اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّـلُوْآ اَوْ یُصَلَّبُوْآ اَوْتُقَطَّعَ اَیْدِیْھِمْ وَاَرْجُلُھُمْ مِّنْ خِلاَفٍ أَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ﴾ (المآئدۃ۵:۳۳) ’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑیں اور زمین میں فساد کرتے پھریں ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کر دیے جائیں یا سولی چڑھا دیے جائیں یا مخالف جانب سے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیے جائیں یا انھیں جلا وطن کر دیا جائے۔‘‘ اور ظاہر ہے کہ کوئی بھی قاضی یا حاکم دو تین چوریوں پر اس قدر شدید حکم نہیں لگا سکتا ۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا معجزہ تھا کہ آپ نے ابتدا ہی سے اس کی سرشت اور عاقبت کے بارے میں خبر دے دی۔ واللّٰہ أعلم۔ راوئ حدیث: [حضرت حارث بن حاطب جمحی قرشی رحمہ اللہ ] حبشہ میں پیدا ہوئے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی طرف سے مکہ میں ۶۶ ہجری میں والی مقرر ہوئے اور چھ سال ان کی امارت کے تحت کام کیا۔ مروان کی امارت مدینہ کے دوران میں ان کے ساتھ بھی کافی تعاون کیا۔