كِتَابُ الْحُدُودِ بَابُ حَدِّ السَّرِقَةِ حسن وَعَنْ صَفْوَانَ بْنِ أُمِّيَّةٍ - رضي الله عنه - أَنَّ النَّبِيَّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ لَهُ لَمَّا أَمَرَ بِقَطْعِ الَّذِي سَرَقَ رِدَاءَهُ، فَشَفَعَ فِيهِ: ((هَلَّا كَانَ ذَلِكَ قَبْلِ أَنْ تَأْتِيَنِي بِهِ؟)). أَخْرَجَهُ أَحْمَدُ، وَالْأَرْبَعَةَ، وَصَحَّحَهُ ابْنُ الْجَارُودِ، وَالْحَاكِمُ.
کتاب: حدود سے متعلق احکام و مسائل
باب: چوری کی حد کا بیان
حضرت صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا‘ جبکہ آپ نے اس آدمی کا ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرمایا تھا جس نے ان (صفوان) کی چادر چرائی تھی اور انھوں نے اس کے حق میں سفارش کی تھی: ’’اسے میرے پاس لانے سے پہلے تم سے ایسا کیوں نہ ہوا (کہ اسے معاف کر دیتے؟‘‘) (اسے احمد اور چاروں نے روایت کیا ہے اور ابن جارود اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔)
تشریح :
1. یہ چوری کا واقعہ یوں ہے کہ صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ بطحاء یا مسجد حرام میں لیٹے ہوئے تھے کہ ایک آدمی آیا اور ان کے سر کے نیچے سے چادر کھینچ لی۔ اسے گرفتار کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں پیش کیا گیااور آپ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرمایا تو صفوان رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے اسے معاف کیا اور درگزر کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ تو نے میرے پاس لانے سے پہلے کیوں نہیں کیا؟‘‘ پھر آپ نے اس شخص کا ہاتھ کاٹ دیا۔ 2.اس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ جب مقدمہ عدالت و حاکم کے پاس چلا جائے تو پھر معافی کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔
تخریج :
أخرجه أبوداود، الحدود، باب في من سرق من حرز، حديث:4394، والنسائي، قطع السارق، حديث:4882، وابن ماجه، الحدود، حديث:2595، والحاكم:4 /380، والترمذي: لم أجده.
1. یہ چوری کا واقعہ یوں ہے کہ صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ بطحاء یا مسجد حرام میں لیٹے ہوئے تھے کہ ایک آدمی آیا اور ان کے سر کے نیچے سے چادر کھینچ لی۔ اسے گرفتار کر کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں پیش کیا گیااور آپ نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرمایا تو صفوان رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے اسے معاف کیا اور درگزر کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’یہ تو نے میرے پاس لانے سے پہلے کیوں نہیں کیا؟‘‘ پھر آپ نے اس شخص کا ہاتھ کاٹ دیا۔ 2.اس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ جب مقدمہ عدالت و حاکم کے پاس چلا جائے تو پھر معافی کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔