كِتَابُ الْحُدُودِ بَابُ حَدِّ السَّرِقَةِ حسن وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ سُئِلَ عَنِ التَّمْرِ الْمُعَلَّقِ؟ فَقَالَ: ((مَنْ أَصَابَ بِفِيهِ مِنْ ذِي حَاجَةٍ، غَيْرَ مُتَّخِذٍ خُبْنَةً، فَلَا شَيْءَ عَلَيْهِ، وَمَنْ خَرَجَ بِشَيْءٍ مِنْهُ، فَعَلَيْهِ الْغَرَامَةُ وَالْعُقُوبَةُ، وَمَنْ خَرَجَ بِشَيْءٍ مِنْهُ بَعْدَ أَنْ يُؤْوِيَهُ الْجَرِينُ، فَبَلَغَ ثَمَنَ الْمِجَنِّ فَعَلَيْهِ الْقَطْعُ)). أَخْرَجَهُ أَبُو دَاوُدَ، وَالنَّسَائِيُّ، وَصَحَّحَهُ الْحَاكِمُ.
کتاب: حدود سے متعلق احکام و مسائل
باب: چوری کی حد کا بیان
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ آپ سے درختوں پر لٹکی ہوئی کھجوروں کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا: ’’جو ضرورت مند شخص اسے وہیں کھالے اور دامن نہ بھرے تو اس پر کوئی سرزنش نہیں۔ اور جو شخص وہاں سے کچھ لے کر نکل جائے تو اس پر تاوان بھی ہے اور سزا بھی۔ اور جو شخص کھجور کے کھلیان میں پہنچنے کے بعد اس میں سے کچھ لے جائے اور وہ ڈھال کی قیمت کے مساوی ہو تو اس پر قطع ید کی سزا نافذ ہوگی۔‘‘ (اسے ابوداود اور نسائی نے بیان کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔)
تشریح :
1. اس حدیث میں جو کچھ بیان ہوا ہے اس کی مختلف صورتیں ممکن ہیں‘ مثلاً: پھل درخت کے اوپر ہی ہیں، ابھی تک توڑنے کی نوبت نہیں آئی‘ ایک بھوکا مسافر پھل توڑ کر کھا کر اپنی بھوک مٹا لیتا ہے تو اس پر بالاتفاق کوئی جرمانہ اور تاوان عائد ہوگا نہ اسے چوری کی سزا کا مستوجب قرار دیا جائے گا، لیکن اگر پھلوں کو پہلے درختوں سے اتارے‘ پھر شکم سیر بھی ہو جائے، مزید برآں گٹھڑی باندھ کر ساتھ لے جانے کی بھی تیاری کرے تو ایسی صورت میں اس پر جرمانہ اور تاوان بھی عائد ہوگا اور سزا بھی دی جائے گی۔ اور اگر مالک نے پھل درختوں سے اتار کر ڈھیر کر لیے ہوں اور اس ڈھیر کی نوعیت محفوظ سامان کی ہو، پھر اس میں سے چوری کی صورت میں قطع ید کی سزا ہوگی بشرطیکہ مسروقہ پھل یا اناج کی قیمت قطع ید کے نصاب کے مساوی ہو۔ 2.اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مالی جرمانہ بھی جائز ہے۔ 3. جمہور اہل علم نے سزائے قطع ید میں مال کے محفوظ ہونے کی جو شرط لگائی ہے ان کا استدلال بھی اسی حدیث سے ہے جیسا کہ پہلے ذکر کیا جاچکا ہے۔
تخریج :
أخرجه أبوداود، الحدود، باب ما لا قطع فيه، حديث:4390، والنسائي، قطع السارق، حديث:4961، والحاكم.
1. اس حدیث میں جو کچھ بیان ہوا ہے اس کی مختلف صورتیں ممکن ہیں‘ مثلاً: پھل درخت کے اوپر ہی ہیں، ابھی تک توڑنے کی نوبت نہیں آئی‘ ایک بھوکا مسافر پھل توڑ کر کھا کر اپنی بھوک مٹا لیتا ہے تو اس پر بالاتفاق کوئی جرمانہ اور تاوان عائد ہوگا نہ اسے چوری کی سزا کا مستوجب قرار دیا جائے گا، لیکن اگر پھلوں کو پہلے درختوں سے اتارے‘ پھر شکم سیر بھی ہو جائے، مزید برآں گٹھڑی باندھ کر ساتھ لے جانے کی بھی تیاری کرے تو ایسی صورت میں اس پر جرمانہ اور تاوان بھی عائد ہوگا اور سزا بھی دی جائے گی۔ اور اگر مالک نے پھل درختوں سے اتار کر ڈھیر کر لیے ہوں اور اس ڈھیر کی نوعیت محفوظ سامان کی ہو، پھر اس میں سے چوری کی صورت میں قطع ید کی سزا ہوگی بشرطیکہ مسروقہ پھل یا اناج کی قیمت قطع ید کے نصاب کے مساوی ہو۔ 2.اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مالی جرمانہ بھی جائز ہے۔ 3. جمہور اہل علم نے سزائے قطع ید میں مال کے محفوظ ہونے کی جو شرط لگائی ہے ان کا استدلال بھی اسی حدیث سے ہے جیسا کہ پہلے ذکر کیا جاچکا ہے۔