كِتَابُ الْحُدُودِ بَابُ حَدِّ السَّرِقَةِ صحيح وَعَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ - رضي الله عنه -، قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يَقُولُ: (1) ((لَا قَطْعَ فِي ثَمَرٍ وَلَا كَثَرٍ)). رَوَاهُ الْمَذْكُورُونَ، وَصَحَّحَهُ أَيْضًا التِّرْمِذِيُّ، وَابْنُ حِبَّانَ
کتاب: حدود سے متعلق احکام و مسائل
باب: چوری کی حد کا بیان
حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ’’پھل اور درخت خرما کی گری (چرانے) میں ہاتھ کاٹنے کی سزا نہیں ہے۔‘‘ (اسے احمد اور چاروں نے روایت کیا ہے۔ ترمذی اور ابن حبان نے اسے بھی صحیح قرار دیا ہے۔)
تشریح :
اس حدیث کے ظاہری معنی و مفہوم سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جو پھل ابھی درخت پر ہوں اور تر ہوں‘ وہ محفوظ جگہ میں ہوں یا غیر محفوظ جگہ میں، ان کی چوری میں قطع ید کی سزا نہیں ہے۔ پھر اسی پر قیاس کرتے ہوئے کہا ہے کہ گوشت‘ دودھ‘ مشروبات‘ روٹیاں وغیرہ کھانے کی اشیاء میں بھی قطع ید کی سزا نہیں ہے۔ لیکن جمہور نے یہ قید لگائی ہے کہ اگر یہ اشیاء غیر محفوظ ہوں تو ان کے لینے میں قطع ید نہیں ورنہ یہ چوری ہوگی اور قطع ید کی سزا بھی ہوگی۔ انھوں نے یہ قید اس حدیث اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کی (دو احادیث کے بعد آنے والی) حدیث میں تطبیق پیدا کرنے کی غرض سے لگائی ہے۔ اور انھوں نے کہا کہ اس حدیث کا دراصل تعلق اہل مدینہ کی اس عمومی عادت کے ساتھ ہے کہ وہ اپنے باغات کو محفوظ و مامون نہیں رکھتے تھے۔
تخریج :
أخرجه أبوداود، الحدود، باب ما لا قطع فيه، حديث:4388، والترمذي، الحدود، حديث:1449، والنسائي، قطع السارق، حديث:4963، وابن ماجه، الحدود، حديث:2593، وأحمد:3 /463، 4 /140، 142، وابن حبان (الإحسان): 6 /318، حديث:4449.
اس حدیث کے ظاہری معنی و مفہوم سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جو پھل ابھی درخت پر ہوں اور تر ہوں‘ وہ محفوظ جگہ میں ہوں یا غیر محفوظ جگہ میں، ان کی چوری میں قطع ید کی سزا نہیں ہے۔ پھر اسی پر قیاس کرتے ہوئے کہا ہے کہ گوشت‘ دودھ‘ مشروبات‘ روٹیاں وغیرہ کھانے کی اشیاء میں بھی قطع ید کی سزا نہیں ہے۔ لیکن جمہور نے یہ قید لگائی ہے کہ اگر یہ اشیاء غیر محفوظ ہوں تو ان کے لینے میں قطع ید نہیں ورنہ یہ چوری ہوگی اور قطع ید کی سزا بھی ہوگی۔ انھوں نے یہ قید اس حدیث اور حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کی (دو احادیث کے بعد آنے والی) حدیث میں تطبیق پیدا کرنے کی غرض سے لگائی ہے۔ اور انھوں نے کہا کہ اس حدیث کا دراصل تعلق اہل مدینہ کی اس عمومی عادت کے ساتھ ہے کہ وہ اپنے باغات کو محفوظ و مامون نہیں رکھتے تھے۔