بلوغ المرام - حدیث 1056

كِتَابُ الْحُدُودِ بَابُ حَدِّ السَّرِقَةِ صحيح وَعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا؛ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: ((أَتَشْفَعُ فِي حَدٍ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ؟)). ثُمَّ قَامَ فَاخْتَطَبَ، فَقَالَ: ((أَيُّهَا النَّاسُ! إِنَّمَا هَلَكَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ، وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ ... )). الْحَدِيثَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ، وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ. وَلَهُ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ: عَنْ عَائِشَةَ: كَانَتِ امْرَأَةٌ تَسْتَعِيرُ الْمَتَاعَ، وَتَجْحَدُهُ، فَأَمَرَ النَّبِيُّ - صلى الله عليه وسلم - بِقَطْعِ يَدِهَا.

ترجمہ - حدیث 1056

کتاب: حدود سے متعلق احکام و مسائل باب: چوری کی حد کا بیان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تم اللہ کی مقرر کردہ حدود میں سے ایک حدکے بارے میں سفارش کرتے ہو؟‘‘ پھر آپ نے کھڑے ہوکر خطبہ دیا اور فرمایا: ’’لوگو! بے شک تم سے پہلے لوگوں کو اسی چیز نے ہلاک کیا کہ جب ان میں سے کوئی معزز آدمی چوری کرلیتا تو اسے چھوڑ دیتے اور جب کوئی کمزور (کم حیثیت والا) آدمی چوری کرتا تو اس پر حد نافذ کر دیتے۔‘‘ (بخاری و مسلم۔ اور یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔) اور مسلم میں ایک اور سندسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے منقول ہے کہ ایک عورت ادھار سامان لیا کرتی تھی‘ پھر انکار کر دیتی تھی تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کاہاتھ کاٹنے کا حکم صادر فرمایا۔
تشریح : 1. مذکورہ روایت سے امام احمد‘ امام اسحق رحمہما اللہ اور ظاہریہ نے استدلال کیا ہے کہ جو عاریتاً چیز لے کر انکار کرے اس کا ہاتھ کاٹنا واجب ہے مگر جمہور کی رائے ہے کہ انکار پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا کیونکہ مخزومیہ خاتون کا قصہ کئی سندوں سے مروی ہے۔ اکثر روایات میں ہے کہ وہ چوری کرتی تھی اور بعض میں یہاں تک صراحت ہے کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے چادر چوری کی تھی‘ چنانچہ اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم چوری کی وجہ سے تھا۔ 2.رہا اس کے عاریتاً لے کر انکار کرنے کا ذکر تو وہ اس کی عادت تھی اور اپنی اسی عادت کی بنا پر وہ اس طرح معروف و مشہور تھی‘ جیسے وہ قبیلۂمخزوم سے ہونے کی وجہ سے مخزومیہ مشہور تھی‘ اس لیے یہ مفہوم قطعاً نہیں کہ اس کے لیے قطع ید کی سزا کا حکم عاریتاً لی ہوئی چیز کے انکار کرنے کی وجہ سے تھا۔
تخریج : أخرجه البخاري، الحدود، باب كراهية الشفاعة في الحد إذا رفع إلى السطان، حديث:6788، ومسلم، الحدود، باب قطع السارق الشريف وغيره...، حديث:1688. 1. مذکورہ روایت سے امام احمد‘ امام اسحق رحمہما اللہ اور ظاہریہ نے استدلال کیا ہے کہ جو عاریتاً چیز لے کر انکار کرے اس کا ہاتھ کاٹنا واجب ہے مگر جمہور کی رائے ہے کہ انکار پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا کیونکہ مخزومیہ خاتون کا قصہ کئی سندوں سے مروی ہے۔ اکثر روایات میں ہے کہ وہ چوری کرتی تھی اور بعض میں یہاں تک صراحت ہے کہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سے چادر چوری کی تھی‘ چنانچہ اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم چوری کی وجہ سے تھا۔ 2.رہا اس کے عاریتاً لے کر انکار کرنے کا ذکر تو وہ اس کی عادت تھی اور اپنی اسی عادت کی بنا پر وہ اس طرح معروف و مشہور تھی‘ جیسے وہ قبیلۂمخزوم سے ہونے کی وجہ سے مخزومیہ مشہور تھی‘ اس لیے یہ مفہوم قطعاً نہیں کہ اس کے لیے قطع ید کی سزا کا حکم عاریتاً لی ہوئی چیز کے انکار کرنے کی وجہ سے تھا۔