بلوغ المرام - حدیث 105

کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ الْغُسْلِ وَحُكْمِ الْجُنُبِ صحيح وَعَنْ أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي اِمْرَأَةٌ أَشُدُّ شَعْرَ رَأْسِي، أَفَأَنْقُضُهُ لِغُسْلِ الْجَنَابَةِ؟ وَفِي رِوَايَةٍ: وَالْحَيْضَةِ؟ فَقَالَ: ((لَا، إِنَّمَا يَكْفِيكِ أَنْ تَحْثِي عَلَى رَأْسِكِ ثَلَاثَ حَثَيَاتٍ)). رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

ترجمہ - حدیث 105

کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل باب: غسل اور جنبی کے حکم کا بیان حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں اپنے سر کے بال (مینڈھیوں کی شکل میں) مضبوطی سے باندھ لیتی ہوں۔ کیا غسل جنابت کے موقع پر ان کو کھولوں؟ اور ایک روایت میں حیض سے فارغ ہو کر غسل کے وقت کے الفاظ ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’نہیں! (کھولنے کی ضرورت نہیں) بس تیرے لیے یہی کافی ہے کہ تو اپنے سر پر تین لپ پانی بہا دیا کرے۔‘‘ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔)
تشریح : 1. یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جسے جنابت لاحق ہو جائے اس کے لیے غسل کرتے وقت بالوں کا کھولنا ضروری نہیں‘ البتہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے‘ جسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے‘ کہ آپ نے بالوں کو کھولنے کا حکم فرمایا۔ (سنن ابن ماجہ‘ الطھارۃ و سننھا‘ باب في الحائض کیف تغتسل‘ حدیث: ۶۴۱) مگر یہ دونوں روایتیں باہم متعارض نہیں کیونکہ بال کھولنے کا حکم اس وقت ہے جب عورت حیض سے غسل کرے‘ لیکن غسل جنابت میں عورت پر واجب نہیں کہ وہ سر کے بال کھولے‘ بلکہ صرف بالوں کی جڑ یا سر کا چمڑا تر ہونا چاہیے، سارے بال تر ہونا ضروری نہیں۔ 2.صحیح مسلم اور مسند احمد میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو کسی ذریعے سے اطلاع ملی کی حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما عورتوں کو غسل جنابت و حیض کے وقت سر کے بال کھولنے کا حکم دیتے ہیں۔ اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ابن عمرو پر تعجب ہے کہ وہ غسل کے وقت عورتوں کو بال کھولنے کا حکم دیتے ہیں تو وہ ان کو سر منڈوانے کا حکم کیوں نہیں دیتے۔ (اس سے تو بہتر ہے کہ وہ عورتوں کو سر منڈوانے کا حکم ہی دے دیں۔) میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی ٹب نما برتن میں غسل کر لیا کرتے تھے اور میں سر پر صرف تین بار پانی ڈال لیتی تھی۔ اور (غسل جنابت میں) سر کے بال کھولنے کی ضرورت نہیں سمجھتی تھی۔ (صحیح مسلم‘ الحیض‘ باب حکم ضفائر المغتسلۃ‘ حدیث:۳۳۱) 3 [وَفِي رِوَایَۃٍ: وَلِلْحَیْضَۃِ؟] کے الفاظ شاذ ہیں جیسا کہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے الصحیحۃ (۱ /۳۶۶) میں وضاحت کی ہے۔
تخریج : أخرجه مسلم ، الحيض، باب حكم ضفائر المغتسلة، حديث:330. 1. یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جسے جنابت لاحق ہو جائے اس کے لیے غسل کرتے وقت بالوں کا کھولنا ضروری نہیں‘ البتہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے‘ جسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے‘ کہ آپ نے بالوں کو کھولنے کا حکم فرمایا۔ (سنن ابن ماجہ‘ الطھارۃ و سننھا‘ باب في الحائض کیف تغتسل‘ حدیث: ۶۴۱) مگر یہ دونوں روایتیں باہم متعارض نہیں کیونکہ بال کھولنے کا حکم اس وقت ہے جب عورت حیض سے غسل کرے‘ لیکن غسل جنابت میں عورت پر واجب نہیں کہ وہ سر کے بال کھولے‘ بلکہ صرف بالوں کی جڑ یا سر کا چمڑا تر ہونا چاہیے، سارے بال تر ہونا ضروری نہیں۔ 2.صحیح مسلم اور مسند احمد میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو کسی ذریعے سے اطلاع ملی کی حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما عورتوں کو غسل جنابت و حیض کے وقت سر کے بال کھولنے کا حکم دیتے ہیں۔ اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ابن عمرو پر تعجب ہے کہ وہ غسل کے وقت عورتوں کو بال کھولنے کا حکم دیتے ہیں تو وہ ان کو سر منڈوانے کا حکم کیوں نہیں دیتے۔ (اس سے تو بہتر ہے کہ وہ عورتوں کو سر منڈوانے کا حکم ہی دے دیں۔) میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی ٹب نما برتن میں غسل کر لیا کرتے تھے اور میں سر پر صرف تین بار پانی ڈال لیتی تھی۔ اور (غسل جنابت میں) سر کے بال کھولنے کی ضرورت نہیں سمجھتی تھی۔ (صحیح مسلم‘ الحیض‘ باب حکم ضفائر المغتسلۃ‘ حدیث:۳۳۱) 3 [وَفِي رِوَایَۃٍ: وَلِلْحَیْضَۃِ؟] کے الفاظ شاذ ہیں جیسا کہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے الصحیحۃ (۱ /۳۶۶) میں وضاحت کی ہے۔