بلوغ المرام - حدیث 1048

كِتَابُ الْحُدُودِ بَابُ حَدِّ الزَّانِي حسن وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((اجْتَنِبُوا هَذِهِ الْقَاذُورَاتِ الَّتِي نَهَى اللَّهُ تَعَالَى عَنْهَا، فَمَنْ أَلَمَّ بِهَا فَلْيَسْتَتِرْ بِسِتْرِ اللَّهِ تَعَالَى، وَلِيَتُبْ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى، فَإِنَّهُ مَنْ يَبْدِ لَنَا صَفْحَتَهُ نُقِمْ عَلَيْهِ كِتَابَ اللَّهِ - عز وجل)). رَوَاهُ الْحَاكِمُ، وَهُوَ فِي ((الْمُوْطَّإِ)) مِنْ مَرَاسِيلِ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ.

ترجمہ - حدیث 1048

کتاب: حدود سے متعلق احکام و مسائل باب: زانی کی حد کا بیان حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ان گندے کاموں سے بچو جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ اور جو شخص ان میں مبتلا ہو جائے تو اسے اللہ کے ڈالے ہوئے پردے میں چھپے رہنا چاہیے اور اسے چاہیے کہ اللہ کی جناب میں (پوشیدہ طور پر) توبہ کر لے کیونکہ جو شخص اپنا معاملہ ہمارے سامنے ظاہر کرے گا ہم اس پر اللہ کا حکم نافذ کر کے چھوڑیں گے۔‘‘ (اسے حاکم نے روایت کیا ہے اور یہ روایت موطا امام مالک میں زید بن اسلم کی مرسل روایات میں مذکور ہے۔)
تشریح : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بشری کمزوری کی بنا پر گناہ کا سرزد ہوجانا خلاف توقع نہیں‘ مگر جب کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو انسان کو چاہیے کہ اپنا جرم اور فعل لوگوں کے سامنے بیان نہ کرتا پھرے بلکہ جب اللہ تعالیٰ نے پردہ پوشی فرمائی ہے تو اسے پردے ہی میں رہنے دے اور پوشیدہ طور پر اللہ رب العزت کے حضور توبہ کرے اور اس سے معافی کا طلب گار ہو۔ لیکن اگر وہ اپنے گناہ کا برملا اظہار کرتا اور اعتراف جرم کرتا ہے تو پھر وہ کسی صورت میں شرعی سزا سے نہیں بچ سکتا۔ راوئ حدیث: [حضرت زید بن اسلم رضی اللہ عنہ ] صحابی ہیں اور بَنُو بَلِيّ‘ یعنی بنو عجلان قبیلہ سے ہیں۔ یہ انصار کے قبیلۂبنو عمرو بن عوف کے حلیف تھے۔ بدر میں شریک ہوئے۔ کہا جاتاہے کہ صفین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیا۔ ہشام کلبی نے کہا ہے کہ انھیں طلیحہ بن خویلد اسدی نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آغاز‘ یعنی ۱۱ ہجری میں ’’ جنگ بزاخہ ‘‘ کے روز قتل کیا تھا۔
تخریج : أخرجه الحاكم:4 /244، 383 وصححه على شرط الشيخين، ووافقه الذهبي، وملك في الموطأ:2 /825، وللحديث شواهد في التمهيد:(5 /224) وغيره. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بشری کمزوری کی بنا پر گناہ کا سرزد ہوجانا خلاف توقع نہیں‘ مگر جب کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو انسان کو چاہیے کہ اپنا جرم اور فعل لوگوں کے سامنے بیان نہ کرتا پھرے بلکہ جب اللہ تعالیٰ نے پردہ پوشی فرمائی ہے تو اسے پردے ہی میں رہنے دے اور پوشیدہ طور پر اللہ رب العزت کے حضور توبہ کرے اور اس سے معافی کا طلب گار ہو۔ لیکن اگر وہ اپنے گناہ کا برملا اظہار کرتا اور اعتراف جرم کرتا ہے تو پھر وہ کسی صورت میں شرعی سزا سے نہیں بچ سکتا۔ راوئ حدیث: [حضرت زید بن اسلم رضی اللہ عنہ ] صحابی ہیں اور بَنُو بَلِيّ‘ یعنی بنو عجلان قبیلہ سے ہیں۔ یہ انصار کے قبیلۂبنو عمرو بن عوف کے حلیف تھے۔ بدر میں شریک ہوئے۔ کہا جاتاہے کہ صفین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیا۔ ہشام کلبی نے کہا ہے کہ انھیں طلیحہ بن خویلد اسدی نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آغاز‘ یعنی ۱۱ ہجری میں ’’ جنگ بزاخہ ‘‘ کے روز قتل کیا تھا۔