كِتَابُ الْحُدُودِ بَابُ حَدِّ الزَّانِي ضعيف وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((ادْفَعُوا الْحُدُودَ، مَا وَجَدْتُمْ لَهَا مَدْفَعًا)). أَخْرَجَهُ ابْنُ مَاجَهْ، وَإِسْنَادُهُ ضَعِيفٌ. وَأَخْرَجَهُ التِّرْمِذِيُّ، وَالْحَاكِمُ: مِنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا بِلَفْظِ: ((ادْرَأُوا الْحُدُودَ عَنِ الْمُسْلِمِينَ مَا اسْتَطَعْتُمْ)). وَهُوَ ضَعِيفٌ أَيْضًا. وَرَوَاهُ الْبَيْهَقِيُّ: عَنْ عَلِيٍّ - رضي الله عنه - (مِنْ) قَوْلِهِ بِلَفْظِ: ((ادْرَأُوا الْحُدُودَ بِالشُّبُهَاتِ)).
کتاب: حدود سے متعلق احکام و مسائل
باب: زانی کی حد کا بیان
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جہاں تک حد لگانے سے بچاؤ کی گنجائش ملے‘ حد رفع کرو۔‘‘ (اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور اس کی سند ضعیف ہے۔) اور اسے ترمذی اور حاکم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے واسطے سے ان الفاظ سے بیان کیا ہے: ’’ جہاں تک تمھارے بس میں ہو‘مسلمانوں سے حدود کو ہٹاؤ۔‘‘ (یہ بھی ضعیف ہے۔) اور بیہقی نے اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے واسطے سے روایت کیا ہے۔ اور وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اپنا قول ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: شبہات کی وجہ سے حدود کو ہٹا دو۔
تشریح :
1. مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے‘ تاہم اگر حدیث کا مفہوم یہ لیا جائے کہ حد اس وقت نافذ کرنی چاہیے جب جرم اس انداز سے ثابت ہو جائے کہ شک و شبہ کی گنجائش باقی نہ رہے جیسا کہ ماعز بن مالک اسلمی رضی اللہ عنہ کے واقعے سے اس کی تائید ہوتی ہے تو اس صورت میں حدیث معناً صحیح ہو گی‘ نیز بعض علماء نے بھی اس مفہوم کی تائید اور توثیق کی ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ 2.حدیث کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مجرموں کو حدیں لگایا ہی نہ کرو بلکہ مقصد یہ ہے کہ حدود کا نفاذ اس وقت کرنا چاہیے جب جرم پوری طرح ثابت ہو جائے۔
تخریج :
أخرجه ابن ماجه، الحدود، باب الستر على المؤمن ودفع الحدود بالشبهات، حديث:2545.* فيه إبراهيم بن الفضل المخزومي وهو متروك (تقريب) وللحديث شواهد ضعيفة عند الترمذي، الحدود، حديث:1424 وغيره، وحديث عائشة: أخرجه الترمذي، الحدود، حديث:1424، والحاكم:4 /285، وسنده ضعيف، يزيد بن زياد الدمشقي متروك، وأثر على : لم أجده في البيهقي موقوفًا عليه، ولكن أخرجه البيهقي عن علي مرفرعًا:8 /238، وسنده ضعيف أيضًا.
1. مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے‘ تاہم اگر حدیث کا مفہوم یہ لیا جائے کہ حد اس وقت نافذ کرنی چاہیے جب جرم اس انداز سے ثابت ہو جائے کہ شک و شبہ کی گنجائش باقی نہ رہے جیسا کہ ماعز بن مالک اسلمی رضی اللہ عنہ کے واقعے سے اس کی تائید ہوتی ہے تو اس صورت میں حدیث معناً صحیح ہو گی‘ نیز بعض علماء نے بھی اس مفہوم کی تائید اور توثیق کی ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ 2.حدیث کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مجرموں کو حدیں لگایا ہی نہ کرو بلکہ مقصد یہ ہے کہ حدود کا نفاذ اس وقت کرنا چاہیے جب جرم پوری طرح ثابت ہو جائے۔