كِتَابُ الْحُدُودِ بَابُ حَدِّ الزَّانِي صحيح وَعَنْ سَعِيدِ بْنِ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: كَانَ بَيْنَ أَبْيَاتِنَا رُوَيْجِلٌ ضَعِيفٌ، فَخَبَثَ بِأَمَةٍ مِنْ إِمَائِهِمْ، فَذَكَرَ ذَلِكَ سَعْدٌ لِرَسُولِ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فَقَالَ: ((اضْرِبُوهُ حَدَّهُ)). فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّهُ أَضْعَفُ مِنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: ((خُذُوا عِثْكَالًا فِيهِ مِائَةُ شِمْرَاخٍ، ثُمَّ اضْرِبُوهُ بِهِ ضَرْبَةً وَاحِدَةً)). فَفَعَلُوا. رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَالنَّسَائِيُّ، وَابْنُ مَاجَهْ، وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ. لَكِنْ اخْتُلِفَ فِي وَصْلِهِ وَإِرْسَالِهِ
کتاب: حدود سے متعلق احکام و مسائل
باب: زانی کی حد کا بیان
حضرت سعید بن سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہمارے محلے میں ایک چھوٹا سا کمزور (اپاہج) آدمی رہتا تھا۔ اس نے ہماری لونڈیوں میں سے ایک لونڈی کے ساتھ بدکاری کر لی ۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا: ’’اسے حد لگاؤ۔‘‘تب وہ کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! وہ تو اس (حد لگنے) سے کہیں زیادہ کمزور اور لاغر ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’کھجور کے درخت کی ایک ایسی بڑی ٹہنی لو جس میں سو شاخیں ہوں‘ پھر اسے ایک ہی دفعہ اس مرد پر مار دو۔‘‘ چنانچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا۔ (اسے احمد‘ نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور اس کی سند حسن ہے لیکن اس کے موصول اور مرسل ہونے میں اختلاف ہے۔)
تشریح :
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غیر شادی شدہ زانی کسی شدید بیماری کی وجہ سے یا فطری و جبلی طور پر اتنا ناتواں‘ کمزور اور نحیف ہو کہ کوڑوں کی پوری حد سے اس کے جاں بحق ہو جانے کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں حد میں نرمی کی جا سکتی ہے‘ البتہ تعداد میں کمی بیشی نہیں ہوگی۔ جمہور علماء کی رائے یہ ہے کہ سو شاخوں والی ٹہنی کو اس طرح مارا جائے کہ ہر شاخ اس مجرم کو لگے اور بعض کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مارنا کافی ہے‘ ضروری نہیں کہ ہر شاخ مجرم کو لگے۔ اس سے سزا کا نفاذ ہو جائے گا۔ مطلب یہ ہوا کہ شرعی سزائیں مجرم کو جان سے مار دینے کے لیے نہیں بلکہ عبرت دینے اور معاشرے میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے ہیں۔ راوئ حدیث: [حضرت سعید بن سعد رضی اللہ عنہما ] سعید بن سعد بن عبادہ انصاری ساعدی۔ صحابی تھے۔ اور ایک قول یہ ہے کہ تابعی تھے۔ ثقہ تھے اور ان سے بہت تھوڑی احادیث مروی ہیں۔ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں انھیں یمن کا والی مقرر کیا تھا۔
تخریج :
أخرجه ابن ماجه، الحدود، باب الكبير والمريض يجب عليه الحد، حديث:2574، وأحمد:5 /222، والنسائي في الكبرٰى:4 /313، حديث:7309.
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غیر شادی شدہ زانی کسی شدید بیماری کی وجہ سے یا فطری و جبلی طور پر اتنا ناتواں‘ کمزور اور نحیف ہو کہ کوڑوں کی پوری حد سے اس کے جاں بحق ہو جانے کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں حد میں نرمی کی جا سکتی ہے‘ البتہ تعداد میں کمی بیشی نہیں ہوگی۔ جمہور علماء کی رائے یہ ہے کہ سو شاخوں والی ٹہنی کو اس طرح مارا جائے کہ ہر شاخ اس مجرم کو لگے اور بعض کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مارنا کافی ہے‘ ضروری نہیں کہ ہر شاخ مجرم کو لگے۔ اس سے سزا کا نفاذ ہو جائے گا۔ مطلب یہ ہوا کہ شرعی سزائیں مجرم کو جان سے مار دینے کے لیے نہیں بلکہ عبرت دینے اور معاشرے میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے ہیں۔ راوئ حدیث: [حضرت سعید بن سعد رضی اللہ عنہما ] سعید بن سعد بن عبادہ انصاری ساعدی۔ صحابی تھے۔ اور ایک قول یہ ہے کہ تابعی تھے۔ ثقہ تھے اور ان سے بہت تھوڑی احادیث مروی ہیں۔ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں انھیں یمن کا والی مقرر کیا تھا۔