كِتَابُ الْحُدُودِ بَابُ حَدِّ الزَّانِي صحيح وَعَنْ عِمْرَانَ بْنِ حَصِينٍ - رضي الله عنه: أَنَّ امْرَأَةً مِنْ جُهَيْنَةَ أَتَتْ نَبِيَّ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - وَهِيَ حُبْلَى مِنَ الزِّنَا - فَقَالَتْ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ! أَصَبْتُ حَدًّا، فَأَقِمْهُ عَلَيَّ، فَدَعَا نَبِيُّ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - وَلِيَّهَا. فَقَالَ: ((أَحْسِنْ إِلَيْهَا فَإِذَا وَضَعَتْ فَائْتِنِي بِهَا)). فَفَعَلَ. فَأَمَرَ بِهَا فَشُكَّتْ عَلَيْهَا ثِيَابُهَا، ثُمَّ أَمَرَ بِهَا فَرُجِمَتْ، ثُمَّ صَلَّى عَلَيْهَا، فَقَالَ عُمَرُ: أَتُصَلِّي عَلَيْهَا يَا نَبِيَّ اللَّهِ وَقَدْ زَنَتْ؟ فَقَالَ: ((لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَةً لَوْ قُسِّمَتْ بَيْنَ سَبْعِينَ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ لَوَسِعَتْهُمْ، وَهَلْ وَجَدَتْ أَفَضَلَ مِنْ أَنْ جَادَتْ بِنَفْسِهَا لِلَّهِ؟)). رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
کتاب: حدود سے متعلق احکام و مسائل
باب: زانی کی حد کا بیان
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جہینہ قبیلے کی ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور وہ اس وقت زنا سے حاملہ تھی۔ اس نے کہا: اے اللہ کے نبی !میں حد کی مستحق ہوں‘ لہٰذا آپ مجھ پر حد نافذ فرمائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سرپرست کو بلایا اور اسے تلقین فرمائی: ’’اس کے ساتھ حسن سلوک کرو اور جب یہ بچہ جنم دے تو اسے میرے پاس لے آؤ۔‘‘ چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (عورت) کے بارے میں حکم دیا تو اس کے کپڑے مضبوطی سے باندھ دیے گئے۔ پھر آپ نے اس کی بابت حکم فرمایا اور اسے سنگسار کر دیا گیا‘ پھر آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: اے اللہ کے نبی !آپ اس کی نماز جنازہ پڑھتے ہیں حالانکہ یہ تو زنا کی مرتکب ہوئی ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اسے اہل مدینہ کے ستر آدمیوں کے درمیان تقسیم کر دیا جائے تو ان سب کو گھیر لے۔ کیا تو نے اس سے بھی بہتر کسی کوپایا ہے جس نے اللہ کے لیے اپنی جان لٹا دی ہے؟‘‘ (اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔)
تشریح :
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حاملہ عورت پر زنا کی حد فوری طور پر نافذ نہیں کر دینی چاہیے۔ وضع حمل تک توقف کرناچاہیے۔ وضع حمل کے بعد بھی اگر نومولود کی پرورش کا کوئی ذمہ لے اور اسے دودھ پلانے والی کا انتظام ہو تو پھر حد لگائی جائے گی۔ اگر ایسا بندوبست سردست نہ ہو سکے تو پھر دودھ چھڑانے تک نفاذ حد کا عمل مؤخر کیا جائے گا۔ 2.حدیث میں ایسی عورت سے حسن سلوک کے ساتھ پیش آنے کی تاکید ہے‘ اس لیے کہ نادان رشتہ دار عورتیں اور بیوقوف مرد طعن و تشنیع سے اس کا جینا دوبھر کر دیتے ہیں۔ شرعی سزا کے علاوہ اس قسم کا ناروا رویہ اور بے جا سلوک تو اسے جیتے جی مارڈالنے کے مترادف ہے۔ 3.اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شوہر دیدہ (بیوہ‘ مطلقہ اور خاوند والی) عورت اگر بدکاری کرے تو اسے بھی سنگسار کیا جائے گا‘ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت کو رجم کرتے ہوئے اس کے ستر کا لحاظ کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ علمائے امت نے مرد کو کھڑے کھڑے اور عورت کو گڑھے میں بٹھا کر سنگسار کرنے کا حکم دیا ہے۔ 4. رجم کے سزا یافتہ مرد و عورت کی نماز جنازہ پڑھنی چاہیے۔ 5. جمہور علماء کا موقف یہ ہے کہ عوام و خواص سبھی نماز جنازہ میں شریک ہوں جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے۔
تخریج :
أخرجه مسلم، الحدود، باب من اعترف على نفسه بالزني، حديث:1696.
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حاملہ عورت پر زنا کی حد فوری طور پر نافذ نہیں کر دینی چاہیے۔ وضع حمل تک توقف کرناچاہیے۔ وضع حمل کے بعد بھی اگر نومولود کی پرورش کا کوئی ذمہ لے اور اسے دودھ پلانے والی کا انتظام ہو تو پھر حد لگائی جائے گی۔ اگر ایسا بندوبست سردست نہ ہو سکے تو پھر دودھ چھڑانے تک نفاذ حد کا عمل مؤخر کیا جائے گا۔ 2.حدیث میں ایسی عورت سے حسن سلوک کے ساتھ پیش آنے کی تاکید ہے‘ اس لیے کہ نادان رشتہ دار عورتیں اور بیوقوف مرد طعن و تشنیع سے اس کا جینا دوبھر کر دیتے ہیں۔ شرعی سزا کے علاوہ اس قسم کا ناروا رویہ اور بے جا سلوک تو اسے جیتے جی مارڈالنے کے مترادف ہے۔ 3.اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شوہر دیدہ (بیوہ‘ مطلقہ اور خاوند والی) عورت اگر بدکاری کرے تو اسے بھی سنگسار کیا جائے گا‘ نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ عورت کو رجم کرتے ہوئے اس کے ستر کا لحاظ کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ علمائے امت نے مرد کو کھڑے کھڑے اور عورت کو گڑھے میں بٹھا کر سنگسار کرنے کا حکم دیا ہے۔ 4. رجم کے سزا یافتہ مرد و عورت کی نماز جنازہ پڑھنی چاہیے۔ 5. جمہور علماء کا موقف یہ ہے کہ عوام و خواص سبھی نماز جنازہ میں شریک ہوں جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے۔