بلوغ المرام - حدیث 1040

كِتَابُ الْحُدُودِ بَابُ حَدِّ الزَّانِي ضعيف وَعَنْ عَلِيٍّ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((أَقِيمُوا الْحُدُودَ عَلَى مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ)). رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ. وَهُوَ فِي ((مُسْلِمٍ)) مَوْقُوفٌ.

ترجمہ - حدیث 1040

کتاب: حدود سے متعلق احکام و مسائل باب: زانی کی حد کا بیان حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنے غلاموں اور لونڈیوں پر حدیں قائم کرو۔‘‘ (اسے ابوداود نے روایت کیا ہے اور مسلم میں یہ روایت موقوف ہے۔)
تشریح : 1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور اس کی بابت مزید لکھا ہے کہ صحیح مسلم اور جامع الترمذی کی روایات اس سے کفایت کرتی ہیں‘ جس سے معلوم ہوا کہ مذکورہ روایت ہمارے فاضل محقق کے نزدیک بھی قابل عمل ہے۔ علاوہ ازیں دیگر محققین نے بھی اسے حسن لغیرہ قرار دیا ہے۔ بنابریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بنا پر قابل عمل ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۲ /۱۳۸) 2. اس حدیث اور گزشتہ حدیث سے معلوم ہوا کہ لونڈی اور غلام پر اس کا مالک حد نافذ کر سکتا ہے اور آزاد کے مقابلے میں ان پر آدھی سزا نافذ کی جائے گی جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَعَلَیْھِنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ﴾ ’’ان پر پاک دامن آزاد عورت کی سزا سے نصف سزا ہے۔‘‘ اگر لونڈی شادی شدہ ہو تو اس پر حد نافذ کرنے میں اختلاف ہے کہ اس پر حد حکومت لگائے گی یا مالک۔ جمہور کہتے ہیں کہ اس پر اس صورت میں بھی مالک ہی حد لگائے گا۔ امام مالک رحمہ اللہ کی رائے ہے کہ شادی شدہ لونڈی پر مالک حد لگانے کا مجاز نہیں کیونکہ اس صورت میں وہ صرف مالک کی لونڈی ہی نہیں دوسرے کی بیوی بھی ہے‘ ہاں اگر لونڈی کا خاوند بھی اسی مالک کا غلام ہو تو پھر مالک اس پر حد لگا سکتا ہے۔ 3. لونڈی کے لیے ثبوت زنا کی وہی صورتیں ہیں جو ایک آزاد عورت کے لیے ہیں‘ البتہ بعض حضرات کی یہ رائے بھی ہے کہ اگر لونڈی کے زنا کی شہادتیں اور اقرار نہ ہو اور مالک کو یقین و وثوق ہو کہ لونڈی نے زنا کا ارتکاب کیا ہے تو مالک محض اپنے یقین و وثوق کی بنیاد پر بھی حد نافذ کر سکتا ہے۔
تخریج : أخرجه أبوداود، الحدود، باب في إقامة الحدعلى المريض، حديث:4473، وحديث مسلم، الحدود، حديث:1705، والترمذي، الحدود، حديث:1441 وغيرهما يغني عنه. 1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے اور اس کی بابت مزید لکھا ہے کہ صحیح مسلم اور جامع الترمذی کی روایات اس سے کفایت کرتی ہیں‘ جس سے معلوم ہوا کہ مذکورہ روایت ہمارے فاضل محقق کے نزدیک بھی قابل عمل ہے۔ علاوہ ازیں دیگر محققین نے بھی اسے حسن لغیرہ قرار دیا ہے۔ بنابریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بنا پر قابل عمل ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۲ /۱۳۸) 2. اس حدیث اور گزشتہ حدیث سے معلوم ہوا کہ لونڈی اور غلام پر اس کا مالک حد نافذ کر سکتا ہے اور آزاد کے مقابلے میں ان پر آدھی سزا نافذ کی جائے گی جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَعَلَیْھِنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ﴾ ’’ان پر پاک دامن آزاد عورت کی سزا سے نصف سزا ہے۔‘‘ اگر لونڈی شادی شدہ ہو تو اس پر حد نافذ کرنے میں اختلاف ہے کہ اس پر حد حکومت لگائے گی یا مالک۔ جمہور کہتے ہیں کہ اس پر اس صورت میں بھی مالک ہی حد لگائے گا۔ امام مالک رحمہ اللہ کی رائے ہے کہ شادی شدہ لونڈی پر مالک حد لگانے کا مجاز نہیں کیونکہ اس صورت میں وہ صرف مالک کی لونڈی ہی نہیں دوسرے کی بیوی بھی ہے‘ ہاں اگر لونڈی کا خاوند بھی اسی مالک کا غلام ہو تو پھر مالک اس پر حد لگا سکتا ہے۔ 3. لونڈی کے لیے ثبوت زنا کی وہی صورتیں ہیں جو ایک آزاد عورت کے لیے ہیں‘ البتہ بعض حضرات کی یہ رائے بھی ہے کہ اگر لونڈی کے زنا کی شہادتیں اور اقرار نہ ہو اور مالک کو یقین و وثوق ہو کہ لونڈی نے زنا کا ارتکاب کیا ہے تو مالک محض اپنے یقین و وثوق کی بنیاد پر بھی حد نافذ کر سکتا ہے۔