بلوغ المرام - حدیث 104

کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ الْغُسْلِ وَحُكْمِ الْجُنُبِ صحيح وَعَنْ عَائِشَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا - قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - إِذَا اغْتَسَلَ مِنَ الْجَنَابَةِ يَبْدَأُ فَيَغْسِلُ يَدَيْهِ، ثُمَّ يُفْرِغُ بِيَمِينِهِ عَلَى شِمَالِهِ، فَيَغْسِلُ فَرْجَهُ، ثُمَّ يَتَوَضَّأُ، ثُمَّ يَأْخُذُ الْمَاءَ، فَيُدْخِلُ أَصَابِعَهُ فِي أُصُولِ الشَّعْرِ، ثُمَّ حَفَنَ عَلَى رَأْسِهِ ثَلَاثَ حَفَنَاتٍ، ثُمَّ أَفَاضَ عَلَى سَائِرِ جَسَدِهِ، ثُمَّ غَسَلَ رِجْلَيْهِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ، وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ. وَلَهُمَا فِي حَدِيثِ مَيْمُونَةَ: ثُمَّ أَفْرَغَ عَلَى فَرْجِهِ، فَغَسَلَهُ بِشِمَالِهِ، ثُمَّ ضَرَبَ بِهَا الْأَرْضَ. وَفِي رِوَايَةٍ: فَمَسَحَهَا بِالتُّرَابِ. وَفِي آخِرِهِ: ثُمَّ أَتَيْتُهُ بِالْمِنْدِيلِ، فَرَدَّهُ، وَفِيهِ: وَجَعَلَ يَنْفُضُ الْمَاءَ بِيَدِهِ.

ترجمہ - حدیث 104

کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل باب: غسل اور جنبی کے حکم کا بیان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غسل جنابت کرتے تو اس طرح آغاز کرتے کہ پہلے ہاتھ دھوتے‘ پھر دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالتے اور اپنی شرم گاہ دھوتے۔ پھر وضو کرتے‘ پھر پانی لے کر اپنی انگلیوں کے ذریعے سے سر کے بالوں کی جڑوں میں (پانی) داخل کرتے۔ پھر تین چلو پانی کے بھر کر یکے بعد دیگرے سر پر ڈالتے۔ پھر باقی سارے جسم پر پانی بہاتے اور (آخر میں) دونوں پاؤں دھوتے۔ (بخاری ومسلم۔ اور یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔)اور بخاری ومسلم میں حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں اس طرح ہے: پھر اپنے عضو مخصوص پر پانی ڈالتے اور اپنے بائیں ہاتھ سے اسے دھوتے اور ہاتھوں کو زمین پر مار کر مٹی سے ملتے (اور صاف کرتے۔) اور ایک دوسری روایت میں اس طرح ہے: پھر دونوں ہاتھ مٹی سے مل کر اچھی طرح صاف کرتے۔ اس روایت کے آخر میں ہے: پھر میں نے آپ کی خدمت میں رومال (تولیہ) پیش کیا مگر آپ نے اسے واپس لوٹا دیا۔ اوراس میں یہ بھی ہے کہ آپ نے (بدن پر جو پانی رہ گیا تھا اسے) اپنے ہاتھ سے جھاڑنا شروع کر دیا۔
تشریح : 1. اس حدیث میں کچھ پہلو وضاحت طلب ہیں۔ مختلف احادیث کے ملانے سے واضح ہوجاتا ہے کہ غسل کرنے سے پہلے آپ ہاتھ دھوتے۔ اس میں تعداد کا ذکر نہیں کہ کتنی بار دھوتے۔ ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں دو یا تین بار دھونے کا ذکر ہے‘ پھر آپ اپنی شرمگاہ کو دھوتے‘ پھر ہاتھ مٹی پر مار کر ہاتھ پاک کرتے‘ پھر اسی طرح وضو کرتے جس طرح نماز کے لیے وضو کیا جاتا ہے۔ پھر تین مرتبہ سر کے بالوں کا خلال کرتے۔ پہلے سر کے دائیں جانب پانی کی تری جڑوں تک پہنچاتے‘ پھر بائیں طرف اسی طرح کرتے‘ پھر سارے جسم پر پانی بہاتے اور آخر میں پاؤں دھوتے۔ 2.حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے کہ پھر فارغ ہو کر ایک طرف ہو جاتے اور دونوں پاؤں دھوتے۔ 3.اسی غسل میں کیے گئے وضو سے نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی دو سنتیں اور نماز فجر کے فرض ادا فرمائے‘ گویا دوبارہ وضو کرنے کی ضرورت و حاجت نہیں‘ بشرطیکہ وضو کے بعد ہاتھ شرمگاہ کو نہ لگا ہو۔ 4. اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وضو اور غسل کے بعد چہرے‘ ہاتھوں اور باقی بدن پر پانی کے اثرات کو تولیے یا رومال وغیرہ سے صاف کرنا ضروری نہیں، البتہ جائز ہے کیونکہ بعض روایات میں کپڑے سے پانی خشک کرنے کا ذکر بھی آیا ہے۔ 5. وضو کے پانی کو ہاتھ سے جھاڑنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں اور جس روایت میں ہاتھ سے پانی جھاڑنے کی ممانعت آئی ہے وہ حدیث ضعیف ہے۔ صحیح حدیث کی موجودگی میں ضعیف کی کوئی وقعت و حیثیت نہیں۔
تخریج : أخرجه البخاري، الغسل، باب الوضوء قبل الغسل، حديث:248، ومسلم، الحيض، باب صفة غسل الجنابة، حديث:316، وحديث ميمونة أخرجه البخاري، الغسل، حديث:266 وغيره، ومسلم، الحيض، حديث:317. 1. اس حدیث میں کچھ پہلو وضاحت طلب ہیں۔ مختلف احادیث کے ملانے سے واضح ہوجاتا ہے کہ غسل کرنے سے پہلے آپ ہاتھ دھوتے۔ اس میں تعداد کا ذکر نہیں کہ کتنی بار دھوتے۔ ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں دو یا تین بار دھونے کا ذکر ہے‘ پھر آپ اپنی شرمگاہ کو دھوتے‘ پھر ہاتھ مٹی پر مار کر ہاتھ پاک کرتے‘ پھر اسی طرح وضو کرتے جس طرح نماز کے لیے وضو کیا جاتا ہے۔ پھر تین مرتبہ سر کے بالوں کا خلال کرتے۔ پہلے سر کے دائیں جانب پانی کی تری جڑوں تک پہنچاتے‘ پھر بائیں طرف اسی طرح کرتے‘ پھر سارے جسم پر پانی بہاتے اور آخر میں پاؤں دھوتے۔ 2.حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے کہ پھر فارغ ہو کر ایک طرف ہو جاتے اور دونوں پاؤں دھوتے۔ 3.اسی غسل میں کیے گئے وضو سے نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی دو سنتیں اور نماز فجر کے فرض ادا فرمائے‘ گویا دوبارہ وضو کرنے کی ضرورت و حاجت نہیں‘ بشرطیکہ وضو کے بعد ہاتھ شرمگاہ کو نہ لگا ہو۔ 4. اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وضو اور غسل کے بعد چہرے‘ ہاتھوں اور باقی بدن پر پانی کے اثرات کو تولیے یا رومال وغیرہ سے صاف کرنا ضروری نہیں، البتہ جائز ہے کیونکہ بعض روایات میں کپڑے سے پانی خشک کرنے کا ذکر بھی آیا ہے۔ 5. وضو کے پانی کو ہاتھ سے جھاڑنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں اور جس روایت میں ہاتھ سے پانی جھاڑنے کی ممانعت آئی ہے وہ حدیث ضعیف ہے۔ صحیح حدیث کی موجودگی میں ضعیف کی کوئی وقعت و حیثیت نہیں۔