بلوغ المرام - حدیث 1038

كِتَابُ الْحُدُودِ بَابُ حَدِّ الزَّانِي صحيح وَعَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ - رضي الله عنه - أَنَّهُ خَطَبَ فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا بِالْحَقِّ، وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ، فَكَانَ فِيمَا أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْهِ آيَةُ الرَّجْمِ. قَرَأْنَاهَا وَوَعَيْنَاهَا وَعَقَلْنَاهَا، فَرَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - وَرَجَمْنَا بَعْدَهُ، فَأَخْشَى إِنْ طَالَ بِالنَّاسِ زَمَانٌ أَنْ يَقُولَ قَائِلٌ: مَا نَجِدُ الرَّجْمَ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَيَضِلُّوا بِتَرْكِ فَرِيضَةٍ أَنْزَلَهَا اللَّهُ، وَإِنَّ الرَّجْمَ حَقٌّ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَلَى مَنْ زَنَى، إِذَا أُحْصِنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ، إِذَا قَامَتْ الْبَيِّنَةُ، أَوْ كَانَ الْحَبَلُ، أَوْ الِاعْتِرَافُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

ترجمہ - حدیث 1038

کتاب: حدود سے متعلق احکام و مسائل باب: زانی کی حد کا بیان حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے‘ انھوں نے اپنے خطاب میں کہا: اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق دے کر مبعوث فرمایا اور ان پر کتاب نازل فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ پر جو کچھ نازل فرمایا اس میں رجم کی آیت بھی تھی۔ ہم نے (خود) اسے پڑھا اور اسے یاد بھی کیا اور اسے (خوب) سمجھا ‘ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا اور آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کیا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ کچھ زمانہ گزرنے کے بعد کوئی کہنے والا کہہ دے گا کہ ہم کتاب اللہ میں رجم (کی سزا) کا ذکر نہیں پاتے۔ اس طرح وہ لوگ ایسے فرض کے تارک ہو کر جسے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا تھا‘ گمراہ ہو جائیں گے‘ حالانکہ رجم (کی سزا) ہر شادی شدہ مرد و عورت پر کتاب اللہ میں ثابت ہے جب گواہی مل جائے یا حمل ہو یا (زانی اور زانیہ کا) اقرار ہو۔ (بخاری و مسلم)
تشریح : 1. اس حدیث سے ثابت ہوا کہ زنا کا ثبوت تین طرح سے ہو سکتا ہے: ٭ چار عاقل بالغ مسلمان مردوں کی شہادتیں ہوں تو جرم زنا ثابت ہوگا۔ ٭ یا زانی خود اقراری ہو کہ اس نے زنا کا ارتکاب کیا ہے۔ ٭ یا عورت حاملہ ہو۔ 2.اگر یہ صورت پیش آجائے کہ ایک عورت شادی شدہ بھی نہیں اور لونڈی بھی نہیں مگر حاملہ ہے تو اس صورت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے علاوہ امام مالک رحمہ اللہ اور ان کے شاگرد کہتے ہیں کہ اس پر حد زنا نافذ ہوگی‘ مگر امام شافعی رحمہ اللہ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک محض حمل سے حد جاری نہیں کی جائے گی۔ امام مالک رحمہ اللہ کا استدلال یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے منبر پر کھڑے ہو کر یہ خطاب فرمایا جس میں حد زنا کے جاری ہونے کے لیے گواہی اور زانی کے اقرار کے ساتھ ساتھ عورت کے حمل کو بھی معتبر دلیل قرار دیا اور مجلس میں موجود صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے تردید نہیں کی تو گویا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ بات بمنزلہ اجماع کے ہے۔
تخریج : أخرجه البخاري، الحدود، باب رجم الحبلٰى في الزنى إذا أحصنت، حديث: 6830، ومسلم، الحدود، باب رجم الثيب في الزني، حديث:1691. 1. اس حدیث سے ثابت ہوا کہ زنا کا ثبوت تین طرح سے ہو سکتا ہے: ٭ چار عاقل بالغ مسلمان مردوں کی شہادتیں ہوں تو جرم زنا ثابت ہوگا۔ ٭ یا زانی خود اقراری ہو کہ اس نے زنا کا ارتکاب کیا ہے۔ ٭ یا عورت حاملہ ہو۔ 2.اگر یہ صورت پیش آجائے کہ ایک عورت شادی شدہ بھی نہیں اور لونڈی بھی نہیں مگر حاملہ ہے تو اس صورت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے علاوہ امام مالک رحمہ اللہ اور ان کے شاگرد کہتے ہیں کہ اس پر حد زنا نافذ ہوگی‘ مگر امام شافعی رحمہ اللہ اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک محض حمل سے حد جاری نہیں کی جائے گی۔ امام مالک رحمہ اللہ کا استدلال یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے منبر پر کھڑے ہو کر یہ خطاب فرمایا جس میں حد زنا کے جاری ہونے کے لیے گواہی اور زانی کے اقرار کے ساتھ ساتھ عورت کے حمل کو بھی معتبر دلیل قرار دیا اور مجلس میں موجود صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے تردید نہیں کی تو گویا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ بات بمنزلہ اجماع کے ہے۔