كِتَابُ الْحُدُودِ بَابُ حَدِّ الزَّانِي صحيح وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه - قَالَ: أَتَى رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ - فَنَادَاهُ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي زَنَيْتُ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ، فَتَنَحَّى تِلْقَاءَ وَجْهِهِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي زَنَيْتُ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ، حَتَّى ثَنَّى ذَلِكَ عَلَيْهِ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ، فَلَمَّا شَهِدَ عَلَى نَفْسِهِ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ. دَعَاهُ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فَقَالَ ((أَبِكَ جُنُونٌ؟)) قَالَ. لَا. قَالَ: ((فَهَلْ أَحْصَنْتَ؟)). قَالَ: نَعَمْ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - ((اذْهَبُوا بِهِ فَارْجُمُوهُ)). مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
کتاب: حدود سے متعلق احکام و مسائل
باب: زانی کی حد کا بیان
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مسلمان آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ اس وقت آپ مسجد میں تشریف فرما تھے۔وہ بلند آواز سے آپ کو پکار کر کہنے لگا: اے اللہ کے رسول !میں نے زنا کیا ہے۔ آپ نے اس سے منہ پھیر لیا۔ وہ دوسری طرف سے گھوم کر آپ کے سامنے آگیا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول !میں نے زنا کیا ہے۔ آپ نے پھر اپنا رخ انور پھیر لیا حتی کہ اس شخص نے چار مرتبہ اپنی بات دہرائی‘ چنانچہ (اس طرح) جب اس نے اپنے خلاف چار مرتبہ گواہیاں دے دیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے پاس بلایا اور پوچھا: ’’کیا تو دیوانہ ہے؟‘‘ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے پھر فرمایا: ’’کیا تو شادی شدہ ہے؟‘‘ اس نے کہا: جی ہاں۔ تو پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسے لے جاؤ اور سنگسار کر دو۔‘‘(بخاری و مسلم)
تشریح :
1. اس حدیث سے بہت سے مسائل اخذ ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ شادی شدہ شخص کو بدکاری کرنے کے جرم میں رجم کی سزا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے سنائی ہے۔ 2.احادیث میں یہ تفصیل بھی موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنائی ہوئی سزائے رجم پر عمل کرتے ہوئے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے رجم کر کے اس شخص کو مار ڈالا تھا۔ دیکھیے: (صحیح البخاري‘ الطلاق‘ باب الطلاق…‘ حدیث: ۵۲۷۰) 3. اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ زانی کو رجم کی سزا دینے کے لیے چار گواہوں کی گواہی ضروری شرط نہیں ہے بلکہ اگر وہ شخص خود زنا کا اقرار کرے تو بھی اسے رجم کر دیا جائے گا‘ اور سزا پر عمل درآمد کرانا اسلامی حکومت ہی کی ذمہ داری ہے۔ 4. بعض حضرات نے اس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ حد زنا کے نفاذ کے لیے جرم زنا کا چار مرتبہ اقرار کرنا شرط ہے‘ حالانکہ اس حدیث میں تو صرف اتنا ہے کہ اس نے چار مرتبہ اقرار جرم کیا تھا‘ یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ چار مرتبہ اقرار جرم شرط ہے؟ بلکہ سیاق تو اس پر دلالت کرتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اعراض صرف اس اقرار میں شبہ کی وجہ سے فرمایا تھا یا اس لیے فرمایا تھا کہ وہ پلٹ جائے اور جو معاملہ ابھی تک اللہ تعالیٰ کے اور اس کے درمیان ہے‘ اس سے توبہ کر لے ‘ اسی لیے اس کے چار مرتبہ اقرار کو کافی نہیں سمجھا بلکہ بعد ازاں اس کے سامنے چند سوالات بھی رکھے جن کا تعلق مختلف پہلوؤں سے تھا اور کئی شبہات نمایاں کیے اور اسے کئی کلمات کی تلقین کی جو اسے رجوع کرنے میں معاون و مددگار ثابت ہو سکتے تھے‘ یا پھر یہ اقرار اس لیے تھا کہ اس کا معاملہ بالکل متحقق ہوجائے اور اس میں کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہ رہے‘ لہٰذا اس حدیث سے اقرار جرم میں چار مرتبہ کو شرط قرار دینا محل نظر ہے۔
تخریج :
أخرجه البخاري، الطلاق، باب الطلاق في الإغلاق...، حديث:5271، 6825، ومسلم، الحدود، باب من اعترف على نفسه بالزنى، حديث:1691.
1. اس حدیث سے بہت سے مسائل اخذ ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ شادی شدہ شخص کو بدکاری کرنے کے جرم میں رجم کی سزا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے سنائی ہے۔ 2.احادیث میں یہ تفصیل بھی موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنائی ہوئی سزائے رجم پر عمل کرتے ہوئے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے رجم کر کے اس شخص کو مار ڈالا تھا۔ دیکھیے: (صحیح البخاري‘ الطلاق‘ باب الطلاق…‘ حدیث: ۵۲۷۰) 3. اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ زانی کو رجم کی سزا دینے کے لیے چار گواہوں کی گواہی ضروری شرط نہیں ہے بلکہ اگر وہ شخص خود زنا کا اقرار کرے تو بھی اسے رجم کر دیا جائے گا‘ اور سزا پر عمل درآمد کرانا اسلامی حکومت ہی کی ذمہ داری ہے۔ 4. بعض حضرات نے اس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ حد زنا کے نفاذ کے لیے جرم زنا کا چار مرتبہ اقرار کرنا شرط ہے‘ حالانکہ اس حدیث میں تو صرف اتنا ہے کہ اس نے چار مرتبہ اقرار جرم کیا تھا‘ یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ چار مرتبہ اقرار جرم شرط ہے؟ بلکہ سیاق تو اس پر دلالت کرتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اعراض صرف اس اقرار میں شبہ کی وجہ سے فرمایا تھا یا اس لیے فرمایا تھا کہ وہ پلٹ جائے اور جو معاملہ ابھی تک اللہ تعالیٰ کے اور اس کے درمیان ہے‘ اس سے توبہ کر لے ‘ اسی لیے اس کے چار مرتبہ اقرار کو کافی نہیں سمجھا بلکہ بعد ازاں اس کے سامنے چند سوالات بھی رکھے جن کا تعلق مختلف پہلوؤں سے تھا اور کئی شبہات نمایاں کیے اور اسے کئی کلمات کی تلقین کی جو اسے رجوع کرنے میں معاون و مددگار ثابت ہو سکتے تھے‘ یا پھر یہ اقرار اس لیے تھا کہ اس کا معاملہ بالکل متحقق ہوجائے اور اس میں کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہ رہے‘ لہٰذا اس حدیث سے اقرار جرم میں چار مرتبہ کو شرط قرار دینا محل نظر ہے۔