كِتَابُ الْجِنَايَاتِ بَابُ قِتَالِ الْجَانِي وَقَتْلُ الْمُرْتَدِّ صحيح وَعَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَاتَلَ يُعْلَى بْنُ أُمَيَّةَ رَجُلًا، فَعَضَّ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ، فَنَزَعَ ثَنِيَّتَهُ، فَاخْتَصَمَا إِلَى النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - فَقَالَ: ((أَيَعَضُّ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ كَمَا يَعَضُّ الْفَحْلُ؟ لَا دِيَةَ لَهُ)). مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ، وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
کتاب: جرائم سے متعلق احکام و مسائل
باب: مجرم سے لڑنے اور مرتد کو قتل کرنے کا بیان
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ کی ایک شخص سے لڑائی ہوگئی۔ ان دونوں میں سے ایک نے دوسرے کو دانتوں سے کاٹا تو اس نے اپنا ہاتھ اس کے منہ سے کھینچ کر باہر نکالا‘ چنانچہ اس کا سامنے کا دانت ٹوٹ کر گر گیا۔ پھر دونوں اپنا جھگڑا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں لے گئے تو آپ نے فرمایا: ’’کیا تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو اس طرح کاٹ کھاتا ہے جس طرح اونٹ؟ اس کے لیے کوئی دیت نہیں۔‘‘ (بخاری و مسلم۔ اور یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔)
تشریح :
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ کسی شخص کی طرف سے پہنچنے والے نقصان اور ضرر کو دور کرنے کے لیے اگر انسان سے کوئی جرم ہو جائے تو وہ جرم قابل مؤاخذہ نہیں۔ جمہور کا یہی مذہب ہے۔
تخریج :
أخرجه البخاري، الديات، باب إذا عض رجلاً فوقعت ثناياه، حديث:6892، ومسلم، القسامة، باب الصائل على نفس الإنسان وعضوه، إذا دفعه...، حديث:1673.
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ کسی شخص کی طرف سے پہنچنے والے نقصان اور ضرر کو دور کرنے کے لیے اگر انسان سے کوئی جرم ہو جائے تو وہ جرم قابل مؤاخذہ نہیں۔ جمہور کا یہی مذہب ہے۔