بلوغ المرام - حدیث 1025

كِتَابُ الْجِنَايَاتِ بَابُ قِتَالِ أَهْلِ الْبَغْيِ ضعيف وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((هَلْ تَدْرِي يَا ابْنَ أُمِّ عَبْدٍ، كَيْفَ حُكْمُ اللَّهِ فِيمَنْ بَغَى مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ؟)) ، قَالَ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: ((لَا يُجْهَزُ عَلَى جَرِيحِهَا، وَلَا يُقْتَلُ أَسِيرُهَا، وَلَا يُطْلَبُ هَارِبُهَا، وَلَا يُقْسَمُ فَيْؤُهَا)). رَوَاهُ الْبَزَّارُ وَالْحَاكِمُ وَصَحَّحَهُ فَوَهِمَ; فَإِنَّ فِي إِسْنَادِهِ كَوْثَرَ بْنَ حَكِيمٍ، وَهُوَ مَتْرُوكٌ. وَصَحَّ عَنْ عَلِيٍّ مِنْ طُرُقٍ نَحْوُهُ مَوْقُوفًا. أَخْرَجَهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَالْحَاكِمُ.

ترجمہ - حدیث 1025

کتاب: جرائم سے متعلق احکام و مسائل باب: باغی لوگوں سے قتال کرنے کا بیان حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے ام عبد کے بیٹے! کیا تجھے معلوم ہے کہ اس امت کے باغیوں کے متعلق اللہ تعالیٰ کا کیا فیصلہ ہے؟‘‘ انھوں نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’اس کے زخمیوں پر تشدد نہیں کیا جائے گا اور نہ اس کے قیدیوں کو قتل کیا جائے گا‘ اور نہ بھاگنے والے کا پیچھا کیا جائے گا‘ اور نہ اس کے مال کو غنیمت جان کر تقسیم کیا جائے گا۔‘‘ (اس روایت کو بزار اور حاکم نے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے‘ مگر یہ حاکم کا وہم ہے‘ اس لیے کہ اس کی سند میں کوثر بن حکیم متروک راوی ہے۔) حضرت علی رضی اللہ عنہ سے موقوفاًاس جیسی روایت کئی طرق سے صحیح ثابت ہے۔ (اسے ابن ابی شیبہ اور حاکم نے بیان کیا ہے۔)
تشریح : راوئ حدیث: [کوثر بن حکیم] عطاء اور مکحول سے روایت کرتا ہے۔ کوفی تھا اور حلب میں رہتا تھا۔ ابن معین کہتے ہیں کہ اس کی کچھ حیثیت نہیں۔ اور امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس کی روایات باطل ہیں۔ (میزان الاعتدال)
تخریج : أخرجه البزار (كشف الأستار): 2 /359، والحاكم: 2 /155، وقال الذهبي: "كوثر بن حكيم متروك" وأثر علي أخرجه ابن أبي شيبة: 15 /280، 281، حديث:37805، وغيره، والبيهقي:8 /181، 182، والحاكم وهو صحيح. راوئ حدیث: [کوثر بن حکیم] عطاء اور مکحول سے روایت کرتا ہے۔ کوفی تھا اور حلب میں رہتا تھا۔ ابن معین کہتے ہیں کہ اس کی کچھ حیثیت نہیں۔ اور امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس کی روایات باطل ہیں۔ (میزان الاعتدال)