بلوغ المرام - حدیث 1024

كِتَابُ الْجِنَايَاتِ بَابُ قِتَالِ أَهْلِ الْبَغْيِ صحيح وَعَنْ أَمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((تَقْتُلُ عَمَّارًا الْفِئَةُ الْبَاغِيَةُ)). رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

ترجمہ - حدیث 1024

کتاب: جرائم سے متعلق احکام و مسائل باب: باغی لوگوں سے قتال کرنے کا بیان حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو باغی گروہ قتل کرے گا۔‘‘(اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔)
تشریح : جمہور علماء کی رائے ہے کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو جنگ صفین کے روز حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں نے قتل کیا ہے اور یوں وہ اصحابِ معاویہ کو الفئۃ الباغیۃ کا مصداق قرار دے کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا برسرحق ہونا اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے خطائے اجتہادی کا صادر ہونا تسلیم کرتے ہیں‘ یعنی ان کا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ قتال خطائے اجتہادی کی وجہ سے تھا جو عنداللہ مؤاخذے کی بجائے اجر ہی کا مستحق ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں دوسری رائے یہ ہے کہ حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کو آپس میں لڑانے والا وہی باغیوں کا گروہ تھا جس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں باغیوں کا وہ گروہ موجود تھا اور حضرت عمار بن یاسر بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں موجود تھے۔ دوران جنگ میں اسی باغی گروہ نے‘ جو مسلمانوں کو آپس میں الجھا کر ہی رکھنا چاہتا تھا‘ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو بھی قتل کر دیا‘ تاہم دلائل کے اعتبار سے جمہور علماء ہی کی رائے راجح معلوم ہوتی ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: مجموعۃ الفتاویٰ‘ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ: ۲ /۵۲۶. ۵۳۷. فتح الباری: ۱ /۷۰۱‘ مطبوعہ دارالسلام‘ تحت حدیث : ۴۴۷)
تخریج : أخرجه مسلم، الفتن، باب لا تقوم الساعه حتى يمر الرجل بقبر الرجل...، حديث:2916. جمہور علماء کی رائے ہے کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو جنگ صفین کے روز حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں نے قتل کیا ہے اور یوں وہ اصحابِ معاویہ کو الفئۃ الباغیۃ کا مصداق قرار دے کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا برسرحق ہونا اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے خطائے اجتہادی کا صادر ہونا تسلیم کرتے ہیں‘ یعنی ان کا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ قتال خطائے اجتہادی کی وجہ سے تھا جو عنداللہ مؤاخذے کی بجائے اجر ہی کا مستحق ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے میں دوسری رائے یہ ہے کہ حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کو آپس میں لڑانے والا وہی باغیوں کا گروہ تھا جس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں باغیوں کا وہ گروہ موجود تھا اور حضرت عمار بن یاسر بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں موجود تھے۔ دوران جنگ میں اسی باغی گروہ نے‘ جو مسلمانوں کو آپس میں الجھا کر ہی رکھنا چاہتا تھا‘ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کو بھی قتل کر دیا‘ تاہم دلائل کے اعتبار سے جمہور علماء ہی کی رائے راجح معلوم ہوتی ہے۔ واللّٰہ أعلم۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: مجموعۃ الفتاویٰ‘ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ: ۲ /۵۲۶. ۵۳۷. فتح الباری: ۱ /۷۰۱‘ مطبوعہ دارالسلام‘ تحت حدیث : ۴۴۷)