كِتَابُ الْجِنَايَاتِ بَابُ دَعْوَى الدَّمِ وَالْقَسَامَةِ صحيح عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، عَنْ رِجَالٍ مِنْ كُبَرَاءِ قَوْمِهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ ومُحَيِّصَةَ بْنَ مَسْعُودٍ خَرَجَا إِلَى خَيْبَرَ مِنْ جَهْدٍ أَصَابَهُمْ، فَأُتِيَ مَحَيِّصَةُ فَأُخْبِرَ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنِ سَهْلِ قَدْ قُتِلَ، وَطُرِحَ فِي عَيْنٍ، فَأَتَى يَهُودَ، فَقَالَ: أَنْتُمْ وَاللَّهِ قَتَلْتُمُوهُ. قَالُوا: وَاللَّهِ مَا قَتَلْنَاهُ، فَأَقْبَلَ هُوَ وَأَخُوهُ حُوَيِّصَةُ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ، فَذَهَبَ مُحَيِّصَةُ لَيَتَكَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((كَبِّرْ كَبِّرْ)) يُرِيدُ: السِّنَّ، فَتَكَلَّمَ حُوَيِّصَةُ، ثُمَّ تَكَلَّمَ مُحَيِّصَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((إِمَّا أَنْ يَدُوا صَاحِبَكُمْ، وَإِمَّا أَنْ يَأْذَنُوا بِحَرْبٍ)). فَكَتَبَ إِلَيْهِمْ فِي ذَلِكَ [كِتَابًا]. فَكَتَبُوا: إِنَّا وَاللَّهِ مَا قَتَلْنَاهُ، فَقَالَ لِحُوَيِّصَةَ، وَمُحَيِّصَةُ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنَ سَهْلٍ: ((أَتَحْلِفُونَ، وَتَسْتَحِقُّونَ دَمَ صَاحِبَكُمْ؟)) قَالُوا: لَا. قَالَ: ((فَتَحْلِفُ لَكُمْ يَهُودُ؟)) قَالُوا: لَيْسُوا مُسْلِمِينَ فَوَدَاهُ رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - مِنْ عِنْدِهِ، فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ مَائَةَ نَاقَةٍ. قَالَ سَهْلٌ: فَلَقَدْ رَكَضَتْنِي مِنْهَا نَاقَةٌ حَمْرَاءُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
کتاب: جرائم سے متعلق احکام و مسائل
باب: دعوائے خون اور قسامت کا بیان
حضرت سہل بن ابو حثمہ اپنی قوم کے بعض بزرگوں سے روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن سہل اور حضرت مُحَیِّصہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اپنی تنگ دستی کی وجہ سے خیبر کی طرف نکلے‘ چنانچہ حضرت مُحَیِّصہ رضی اللہ عنہ کو اطلاع دی گئی کہ عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہ کو قتل کر دیا گیا ہے اور اسے ایک چشمے میں پھینک دیا گیا ہے۔ مُحَیِّصہ رضی اللہ عنہ یہودیوں کے پاس آئے اور کہا : اللہ کی قسم! تم لوگوں نے اسے قتل کیا ہے۔ انھوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم نے اسے قتل نہیں کیا۔ پھر محیصہ اور ان کا بھائی حُوَیِّصہ اور عبدالرحمن بن سہل رضی اللہ عنہم تینوں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس) آئے اور مُحَیِّصـہ نے گفتگو کرنی چاہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بڑے کو بات کرنے دو اور اس کے حق کا لحاظ کرو۔‘‘ آپ کی مراد تھی کہ جو تم میں عمر میں بڑا ہے وہ بات کرے‘ چنانچہ حویصہ رضی اللہ عنہ نے گفتگو کی‘ پھر محیصہ نے بات کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ لوگ یا تو تمھارے صاحب اور ساتھی کی دیت ادا کریں گے یا اعلانِ جنگ کریں گے۔‘‘ پھر اس سلسلے میں آپ نے ان کے نام ایک خط تحریر فرمایا جس کے جواب میں انھوں نے لکھا: اللہ کی قسم! ہم نے اسے قتل نہیں کیا۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حُوَیِّصہ‘ مُحَیِّصہ اور عبدالرحمن بن سہل رضی اللہ عنہم سے فرمایا: ’’کیا تم لوگ قسم کھا کر اپنے صاحب کے خون کے حق دار بنو گے؟‘‘ انھوں نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ’’تو پھر تم کو یہودی قسم دیں؟‘‘ انھوں نے کہا کہ وہ تو مسلمان نہیں ہیں (اس لیے ان کی قسم کا کوئی اعتبار نہیں۔) چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہ ) کی دیت اپنے پاس (بیت المال) سے دی اور ان کی طرف سو اونٹنیاں بھیج دیں۔ حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ ان میں سے ایک سرخ رنگ کی اونٹنی نے مجھے لات ماری تھی۔(بخاری و مسلم)
تشریح :
1. اس حدیث سے قسامت کا ثبوت ملتا ہے۔ 2.قسامت یہ ہے کہ قاتل کا کسی طرح پتہ نہ چلنے کی وجہ سے مشتبہ اشخاص سے قسم لی جائے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا اور انھیں اس کے قاتل کا علم بھی نہیں۔ 3. یہ طریقہ دور جاہلیت میں بھی تھا‘ اسلام نے اسے جائز رکھا۔ 4. اس میں پچاس آدمیوں کی قسمیہ شہادت ہوتی ہے کہ ہم نے یا ہمارے قبیلے نے یا ہمارے گاؤں کے لوگوں نے اسے قتل نہیں کیا۔ 5. معلوم رہے کہ یہ قسم صرف خون کے مقدمے میں ہوتی ہے‘ باقی حدود کے مقدمات میں ایسی قسمیہ شہادت قبول نہیں ہوتی۔ 6. قسامت میں اگر مقتول کے اولیاء و ورثاء ثبوت پیش کردیں یا عدم ثبوت کی صورت میں قسم دے دیں کہ ہمارے مقتول کے قاتل یہی ہیں تو مدعا علیہ پر دیت لازم ہو جاتی ہے۔ اگر مدعی ان دونوں باتوں سے قاصر ہوں اور مدعا علیہ یا مدعا علیہم پچاس قسمیں دے دیں تو وہ بری ہو جاتے ہیں۔ 7.قسمیں ان حضرات کی تسلیم ہوں گی جن کو مدعی منتخب کرے۔ 8. اس حدیث سے یہ اہم مسئلہ بھی ثابت ہوا کہ اجتماعی معاملات کی بابت عمررسیدہ کو بات پہلے کرنی چاہیے۔ 9. قسامت والے معاملے میں پہلے قسم مقتول کے اولیاء کے ذمے ہوگی‘ اگر وہ گریز اور اعراض کریں تو پھر جن پر دعویٰ دائر کیا گیا ہے وہ قسم کھا لیں گے اور بری ہو جائیں گے اور ان پر کسی قسم کی کوئی چیز عائد نہیں ہوگی اور اگر قسمیں نہیں کھائیں گے تو ان پر دیت لازم ہو گی۔ راوئ حدیث: [حضرت عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہ ] عبداللہ بن سہل بن زید بن کعب بن عامر انصاری حارثی۔ خیبر میں قتل کیے گئے اور ایک چشمہ میں پائے گئے کہ ان کی گردن توڑ دی گئی تھی۔ [حضرت مُحَیِّصہ رضی اللہ عنہ ] ابوسعید محیصہ بن مسعود بن کعب حارثی انصاری مدنی۔ عبداللہ بن سہل مقتول کے چچا زاد بھائی تھے۔ مشہور و معروف صحابی ہیں۔ ہجرت سے پہلے اسلام قبول کیا۔ احد و خندق کے علاوہ تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں فدک کی طرف بھیجا تھا تاکہ اہل فدک کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں۔ [حضرت حُوَیِّصَہ رضی اللہ عنہ ] محیصہ کے سگے بڑے بھائی ہیں۔ ۳ ہجری میں اسلام قبول کیا۔ اُحد اور خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہے۔ [حضرت عبدالرحمن بن سہل رضی اللہ عنہ ] یہ عبداللہ بن سہل کے بھائی تھے۔ ان کی والدہ کا نام لیلیٰ بنت نافع بن عامر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ بدر و احد اور باقی تمام غزوات میں شریک رہے۔ یہ وہ صاحب تھے جنھیں سانپ نے ڈس لیا تھا۔ حضرت عُمارہ بن حزم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق انھیں جھاڑ پھونک کی۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اصابہ میں اس کی بابت تردد کا اظہار کیا ہے اور اسے بعید تصور کیا ہے۔
تخریج :
أخرجه البخاري، الأحكام، باب كتاب الحاكم إلى عماله والقاضي إلى أمنائه، حديث:7192، ومسلم، القسامة والمحاربين....، باب القسامة، حديث:1669.
1. اس حدیث سے قسامت کا ثبوت ملتا ہے۔ 2.قسامت یہ ہے کہ قاتل کا کسی طرح پتہ نہ چلنے کی وجہ سے مشتبہ اشخاص سے قسم لی جائے کہ انھوں نے قتل نہیں کیا اور انھیں اس کے قاتل کا علم بھی نہیں۔ 3. یہ طریقہ دور جاہلیت میں بھی تھا‘ اسلام نے اسے جائز رکھا۔ 4. اس میں پچاس آدمیوں کی قسمیہ شہادت ہوتی ہے کہ ہم نے یا ہمارے قبیلے نے یا ہمارے گاؤں کے لوگوں نے اسے قتل نہیں کیا۔ 5. معلوم رہے کہ یہ قسم صرف خون کے مقدمے میں ہوتی ہے‘ باقی حدود کے مقدمات میں ایسی قسمیہ شہادت قبول نہیں ہوتی۔ 6. قسامت میں اگر مقتول کے اولیاء و ورثاء ثبوت پیش کردیں یا عدم ثبوت کی صورت میں قسم دے دیں کہ ہمارے مقتول کے قاتل یہی ہیں تو مدعا علیہ پر دیت لازم ہو جاتی ہے۔ اگر مدعی ان دونوں باتوں سے قاصر ہوں اور مدعا علیہ یا مدعا علیہم پچاس قسمیں دے دیں تو وہ بری ہو جاتے ہیں۔ 7.قسمیں ان حضرات کی تسلیم ہوں گی جن کو مدعی منتخب کرے۔ 8. اس حدیث سے یہ اہم مسئلہ بھی ثابت ہوا کہ اجتماعی معاملات کی بابت عمررسیدہ کو بات پہلے کرنی چاہیے۔ 9. قسامت والے معاملے میں پہلے قسم مقتول کے اولیاء کے ذمے ہوگی‘ اگر وہ گریز اور اعراض کریں تو پھر جن پر دعویٰ دائر کیا گیا ہے وہ قسم کھا لیں گے اور بری ہو جائیں گے اور ان پر کسی قسم کی کوئی چیز عائد نہیں ہوگی اور اگر قسمیں نہیں کھائیں گے تو ان پر دیت لازم ہو گی۔ راوئ حدیث: [حضرت عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہ ] عبداللہ بن سہل بن زید بن کعب بن عامر انصاری حارثی۔ خیبر میں قتل کیے گئے اور ایک چشمہ میں پائے گئے کہ ان کی گردن توڑ دی گئی تھی۔ [حضرت مُحَیِّصہ رضی اللہ عنہ ] ابوسعید محیصہ بن مسعود بن کعب حارثی انصاری مدنی۔ عبداللہ بن سہل مقتول کے چچا زاد بھائی تھے۔ مشہور و معروف صحابی ہیں۔ ہجرت سے پہلے اسلام قبول کیا۔ احد و خندق کے علاوہ تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں فدک کی طرف بھیجا تھا تاکہ اہل فدک کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں۔ [حضرت حُوَیِّصَہ رضی اللہ عنہ ] محیصہ کے سگے بڑے بھائی ہیں۔ ۳ ہجری میں اسلام قبول کیا۔ اُحد اور خندق سمیت تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہے۔ [حضرت عبدالرحمن بن سہل رضی اللہ عنہ ] یہ عبداللہ بن سہل کے بھائی تھے۔ ان کی والدہ کا نام لیلیٰ بنت نافع بن عامر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ بدر و احد اور باقی تمام غزوات میں شریک رہے۔ یہ وہ صاحب تھے جنھیں سانپ نے ڈس لیا تھا۔ حضرت عُمارہ بن حزم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق انھیں جھاڑ پھونک کی۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اصابہ میں اس کی بابت تردد کا اظہار کیا ہے اور اسے بعید تصور کیا ہے۔