بلوغ المرام - حدیث 102

کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ الْغُسْلِ وَحُكْمِ الْجُنُبِ حسن وَعَنْ عَلِيٍّ - رضي الله عنه - قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يُقْرِئُنَا الْقُرْآنَ مَا لَمْ يَكُنْ [ص:36] جُنُبًا. رَوَاهُ الْخَمْسَةُ، وَهَذَا لَفْظُ التِّرْمِذِيِّ وَحَسَّنَةُ، وَصَحَّحَهُ ابْنُ حِبَّانَ.

ترجمہ - حدیث 102

کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل باب: غسل اور جنبی کے حکم کا بیان حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حالت جنابت کے علاوہ ہر حالت میں ہمیں قرآن مجید پڑھا دیا کرتے تھے۔ (اسے احمد او ر چاروں نے روایت کیا ہے۔ یہ الفاظ ترمذی کے ہیں اور انھوں نے اسے حسن کہا ہے جبکہ ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔)
تشریح : 1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جنبی مرد کو غسل کیے بغیر قرآن پاک کی تلاوت نہیں کرنی چاہیے‘ یعنی قرآن کی نیت سے ایک آیت بھی نہیں پڑھنی چاہیے۔ 2. امام ابویعلیٰ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے کہ میں نے نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا‘ آپ نے پہلے وضو کیا اور پھر بعد میں قرآن مجید پڑھا اور فرمایا: ’’جس کسی کو جنابت لاحق نہ ہو اس کے لیے مناسب طریقہ یہی ہے (کہ وضو کر کے تلاوت قرآن مجید کرے۔) اور جنبی نہ پڑھے اگرچہ ایک ہی آیت کیوں نہ ہو۔‘‘ (مسند أبي یعلیٰ بتحقیق الشیخ الأثري:۱ /۲۰۸) 3جو علماء‘ جنابت اور حیض کی حالت میں بھی تلاوتِ قرآن سمیت اللہ کا ذکر کرنے کی اجازت دیتے ہیں‘ ان کے نزدیک یہ حدیث درجۂ صحت کو نہیں پہنچتی۔
تخریج : أخرجه أبوداود، الطهارة، باب في الجنب يقرأ القر آن، حديث:229، والترمذي، الطهارة، حديث:146، والنسائي، الطهارة، حديث:267، وابن ماجه، الطهارة، حديث:594، وأحمد:1 / 83. 1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جنبی مرد کو غسل کیے بغیر قرآن پاک کی تلاوت نہیں کرنی چاہیے‘ یعنی قرآن کی نیت سے ایک آیت بھی نہیں پڑھنی چاہیے۔ 2. امام ابویعلیٰ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے کہ میں نے نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا‘ آپ نے پہلے وضو کیا اور پھر بعد میں قرآن مجید پڑھا اور فرمایا: ’’جس کسی کو جنابت لاحق نہ ہو اس کے لیے مناسب طریقہ یہی ہے (کہ وضو کر کے تلاوت قرآن مجید کرے۔) اور جنبی نہ پڑھے اگرچہ ایک ہی آیت کیوں نہ ہو۔‘‘ (مسند أبي یعلیٰ بتحقیق الشیخ الأثري:۱ /۲۰۸) 3جو علماء‘ جنابت اور حیض کی حالت میں بھی تلاوتِ قرآن سمیت اللہ کا ذکر کرنے کی اجازت دیتے ہیں‘ ان کے نزدیک یہ حدیث درجۂ صحت کو نہیں پہنچتی۔