كِتَابُ الْجِنَايَاتِ بَابُ الدِّيَاتِ ضعيف وَعَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ رَفَعَهُ قَالَ: ((مَنْ تَطَبَّبَ - وَلَمْ يَكُنْ بِالطِّبِّ مَعْرُوفًا - فَأَصَابَ نَفْسًا فَمَا دُونَهَا، فَهُوَ ضَامِنٌ)). أَخْرَجَهُ الدَّارَقُطْنِيُّ، وَصَحَّحَهُ الْحَاكِمُ، وَهُوَ عِنْدَ أَبِي دَاوُدَ، وَالنَّسَائِيِّ وَغَيْرِهِمَا; إِلَّا أَنَّ مَنْ أَرْسَلَهُ أَقْوَى مِمَّنْ وَصَلَهُ.
کتاب: جرائم سے متعلق احکام و مسائل
باب: دیتوں سے متعلق احکام و مسائل
حضرت عمرو بن شعیب نے اپنے باپ سے اور انھوں نے اپنے دادا (عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما ) سے روایت کیا ہے‘ وہ مرفوعاً بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے علاج کیا‘ حالانکہ وہ طب میں معروف نہیں ہے‘ پس کسی جان کو ہلاک کر ڈالا یا کوئی اور نقصان کر دیاتو وہ ذمہ دار ٹھہرے گا۔‘‘ (اسے دارقطنی نے روایت کیا ہے اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ ابوداود اور نسائی وغیرہ کے ہاں بھی یہ روایت منقول ہے مگر جس نے اس روایت کو مرسل بیان کیا ہے وہ ان راویوں سے زیادہ قوی ہے جنھوں نے اسے موصول بیان کیا ہے۔)
تشریح :
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے شواہد کی بنا پر اسے حسن قرار دیا ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ مذکورہ روایت مجموعی طرق سے حسن درجے کی بن جاتی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ‘ رقم:۶۳۵) 2.اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص صحیح معنوں میں طبیب نہیں مگر وہ کسی کو دوائی دیتا ہے اور اس سے جانی نقصان ہو جاتا ہے یا اعضائے بدن میں سے کوئی عضو ناکارہ ہو جاتا ہے تو اس پر اس کی دیت واجب ہوگی اور ادائیگی ٔدیت کا بار اس کے عصبہ پر پڑے گا۔ 3. علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے (زاد المعاد میں) طبیب حاذق کے لیے بیس باتوں کا خیال و لحاظ رکھنا ضروری قرار دیا ہے‘ پھر ان کو ایک ایک کر کے بیان کیا ہے۔ 4. ناتجربہ کار اور اناڑی طبیب سے نقصان کی صورت میں اس پر دیت کے واجب ہونے پر تمام ائمہ کا اجماع ہے۔
تخریج :
أخرجه الدارقطني: 3 /196، والحاكم:4 /212 وصححه، ووافقه الذهبي[وسنده ضعيف] وأبوداود، الديات، حديث:4586، والنسائي، القسامة، حديث"4834.
1. مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے شواہد کی بنا پر اسے حسن قرار دیا ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ مذکورہ روایت مجموعی طرق سے حسن درجے کی بن جاتی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ‘ رقم:۶۳۵) 2.اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص صحیح معنوں میں طبیب نہیں مگر وہ کسی کو دوائی دیتا ہے اور اس سے جانی نقصان ہو جاتا ہے یا اعضائے بدن میں سے کوئی عضو ناکارہ ہو جاتا ہے تو اس پر اس کی دیت واجب ہوگی اور ادائیگی ٔدیت کا بار اس کے عصبہ پر پڑے گا۔ 3. علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے (زاد المعاد میں) طبیب حاذق کے لیے بیس باتوں کا خیال و لحاظ رکھنا ضروری قرار دیا ہے‘ پھر ان کو ایک ایک کر کے بیان کیا ہے۔ 4. ناتجربہ کار اور اناڑی طبیب سے نقصان کی صورت میں اس پر دیت کے واجب ہونے پر تمام ائمہ کا اجماع ہے۔