بلوغ المرام - حدیث 1007

كِتَابُ الْجِنَايَاتِ بَابُ الْجِنَايَاتِ صحيح وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قُتِلَ غُلَامٌ غِيلَةً، فَقَالَ عُمَرُ: ((لَوِ اشْتَرَكَ فِيهِ أَهْلُ صَنْعَاءَ لَقَتَلْتُهُمْ بِهِ)). أَخْرَجَهُ الْبُخَارِيُّ.

ترجمہ - حدیث 1007

کتاب: جرائم سے متعلق احکام و مسائل باب: جرائم سے متعلق احکام و مسائل حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک غلام دھوکے سے قتل کر دیا گیا تو (اس پر) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر اس کے قتل میں سارے اہل صنعاء شریک ہوتے تو میں اس کے بدلے میں ان سب کو قتل کر ڈالتا۔ (اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔)
تشریح : 1. جمہور علماء کی رائے اسی اثر کے مطابق ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ایک آدمی کے بدلے میں پوری جماعت کو قتل کیا جائے گا جبکہ یہ سارے لوگ ایک کے قتل کرنے میں شریک ہوں لیکن حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی سابقہ مرفوع روایت اس اثر کے معارض و مخالف ہے کہ جب ایک آدمی کسی کو مضبوطی سے پکڑ لے اور دوسرا آدمی اس گرفتار شدہ آدمی کو قتل کر دے تو حقیقی و اصلی قاتل کو قتل کیا جائے گا اور پکڑنے والے کو قید کر دیا جائے گا۔ اس اثر اور سابقہ روایت کے مابین تطبیق کے لیے عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ اشتراک سے مراد اجتماعی طور پر براہ راست قتل کرنے میں مشارکت ہے اور پکڑ کر روکے رکھنا قتل میں اشتراک نہیں بلکہ یہ تو تعاون و معاونت ہے‘ لہٰذا حدیث اور اثر کے مابین کوئی تعارض نہیں۔ تاہم اس قول کی تردید بعض طرق میں وارد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول سے ہوتی ہے کہ اگر تمام اہل صنعاء اس قتل میں ایک دوسرے کے معاون ہوتے تو میں ان سب کو قتل کر ڈالتا۔ 2. صاحب سبل السلام نے اس موقف کی تائید کی ہے کہ پوری کی پوری جماعت ایک آدمی کے قتل کے بدلے میں قتل نہیں کی جائے گی بلکہ ایسی صورت میں دیت واجب ہوگی۔ پھر فرماتے ہیں کہ ہم نے یہاں اس موقف کی تائید تو کی ہے لیکن بعد میں ہمیں یہ موقف قوی معلوم ہوا کہ ایک شخص کے قتل کے بدلے میں اس قتل میں شریک پوری جماعت کو قتل کیا جائے گا اور ہم نے اس کی دلیل ضوء النھارکے حواشی اور الأبحاث المسددۃ کی تعلیق میں بیان کی ہے۔
تخریج : أخرجه البخاري، الديات، باب إذا أصاب قوم من رجل هل يعاقب أو يقتص...، حديث"6896. 1. جمہور علماء کی رائے اسی اثر کے مطابق ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ایک آدمی کے بدلے میں پوری جماعت کو قتل کیا جائے گا جبکہ یہ سارے لوگ ایک کے قتل کرنے میں شریک ہوں لیکن حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی سابقہ مرفوع روایت اس اثر کے معارض و مخالف ہے کہ جب ایک آدمی کسی کو مضبوطی سے پکڑ لے اور دوسرا آدمی اس گرفتار شدہ آدمی کو قتل کر دے تو حقیقی و اصلی قاتل کو قتل کیا جائے گا اور پکڑنے والے کو قید کر دیا جائے گا۔ اس اثر اور سابقہ روایت کے مابین تطبیق کے لیے عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ اشتراک سے مراد اجتماعی طور پر براہ راست قتل کرنے میں مشارکت ہے اور پکڑ کر روکے رکھنا قتل میں اشتراک نہیں بلکہ یہ تو تعاون و معاونت ہے‘ لہٰذا حدیث اور اثر کے مابین کوئی تعارض نہیں۔ تاہم اس قول کی تردید بعض طرق میں وارد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول سے ہوتی ہے کہ اگر تمام اہل صنعاء اس قتل میں ایک دوسرے کے معاون ہوتے تو میں ان سب کو قتل کر ڈالتا۔ 2. صاحب سبل السلام نے اس موقف کی تائید کی ہے کہ پوری کی پوری جماعت ایک آدمی کے قتل کے بدلے میں قتل نہیں کی جائے گی بلکہ ایسی صورت میں دیت واجب ہوگی۔ پھر فرماتے ہیں کہ ہم نے یہاں اس موقف کی تائید تو کی ہے لیکن بعد میں ہمیں یہ موقف قوی معلوم ہوا کہ ایک شخص کے قتل کے بدلے میں اس قتل میں شریک پوری جماعت کو قتل کیا جائے گا اور ہم نے اس کی دلیل ضوء النھارکے حواشی اور الأبحاث المسددۃ کی تعلیق میں بیان کی ہے۔