بلوغ المرام - حدیث 1005

كِتَابُ الْجِنَايَاتِ بَابُ الْجِنَايَاتِ ضعيف وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: ((إِذَا أَمْسَكَ الرَّجُلُ الرَّجُلَ، وَقَتَلَهُ الْآخَرُ، يُقْتَلُ الَّذِي قَتَلَ، وَيُحْبَسُ الَّذِي أَمْسَكَ)). رَوَاهُ الدَّارَقُطْنِيُّ مَوْصُولًا وَمُرْسَلًا، وَصَحَّحَهُ ابْنُ الْقَطَّانِ، وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ، إِلَّا أَنَّ الْبَيْهَقِيَّ رَجَّحَ الْمُرْسَلَ.

ترجمہ - حدیث 1005

کتاب: جرائم سے متعلق احکام و مسائل باب: جرائم سے متعلق احکام و مسائل حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب ایک آدمی کسی آدمی کو پکڑے رکھے اور کوئی دوسرا پکڑے ہوئے آدمی کو قتل کر ڈالے تو قاتل کو قتل کیا جائے گا اور پکڑنے والے کو قید کیا جائے گا۔‘‘(اسے دارقطنی نے موصولاً اور مرسلا ً روایت کیا ہے اور ابن قطان نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ اس کے راوی ثقہ ہیں مگر بیہقی نے اس کے مرسل ہونے کو ترجیح دی ہے۔)
تشریح : 1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر ایک آدمی کو دو آدمی اس طرح قتل کریں کہ ایک نے پکڑے رکھا اور دوسرے نے اسے قتل کر دیا تو اس صورت میں قاتل کو قتل کیا جائے گا اور پکڑنے والے کو قید کی سزا دی جائے گی‘ اور یہ سزا عمر قید کی ہوگی یا عدالت کی صوابدید پر ہوگی۔ احناف اور شوافع کا یہی مسلک ہے مگر امام مالک ‘ نخعی اور ابن ابی لیلیٰ رحمہم اللہ کا قول یہ ہے کہ دونوں کو قتل کیا جائے گا کیونکہ دونوں اس کے قتل میں شریک ہیں۔ اگر پکڑنے والا اسے نہ پکڑتا تو ممکن ہے کہ وہ قاتل کے وار سے بچ کر بھاگ جاتا اور قتل نہ ہوتا۔ چونکہ اس کے قتل میں دونوں برابر کے شریک ہیں‘ لہٰذا سزا بھی دونوں کی برابر ہونی چاہیے۔ 2. دیگر دلائل کی رو سے یہی‘ یعنی دوسرا موقف راجح معلوم ہوتا ہے کیونکہ مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے۔ واللّٰہ أعلم۔
تخریج : أخرجه الدارقطني:3 /140، والبيهقي"8 /50، سفيان الثوري عنعن، وفيه علة أخرى. 1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر ایک آدمی کو دو آدمی اس طرح قتل کریں کہ ایک نے پکڑے رکھا اور دوسرے نے اسے قتل کر دیا تو اس صورت میں قاتل کو قتل کیا جائے گا اور پکڑنے والے کو قید کی سزا دی جائے گی‘ اور یہ سزا عمر قید کی ہوگی یا عدالت کی صوابدید پر ہوگی۔ احناف اور شوافع کا یہی مسلک ہے مگر امام مالک ‘ نخعی اور ابن ابی لیلیٰ رحمہم اللہ کا قول یہ ہے کہ دونوں کو قتل کیا جائے گا کیونکہ دونوں اس کے قتل میں شریک ہیں۔ اگر پکڑنے والا اسے نہ پکڑتا تو ممکن ہے کہ وہ قاتل کے وار سے بچ کر بھاگ جاتا اور قتل نہ ہوتا۔ چونکہ اس کے قتل میں دونوں برابر کے شریک ہیں‘ لہٰذا سزا بھی دونوں کی برابر ہونی چاہیے۔ 2. دیگر دلائل کی رو سے یہی‘ یعنی دوسرا موقف راجح معلوم ہوتا ہے کیونکہ مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے۔ واللّٰہ أعلم۔