كِتَابُ الْجِنَايَاتِ بَابُ الْجِنَايَاتِ صحيح وَعَنْ أَنَسٍ - رضي الله عنه: أَنَّ الرُّبَيِّعَ بِنْتَ النَّضْرِ - عَمَّتَهُ - كَسَرَتْ ثَنِيَّةَ جَارِيَةٍ، فَطَلَبُوا إِلَيْهَا الْعَفْوَ، فَأَبَوْا، فَعَرَضُوا الْأَرْشَ، فَأَبَوْا، فَأَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - وَأَبَوْا إِلَّا الْقِصَاصَ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - بِالْقِصَاصِ، فَقَالَ أَنَسُ بْنُ النَّضْرِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَتُكْسَرُ ثَنِيَّةُ الرُّبَيِّعِ؟ لَا، وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، لَا تُكْسَرُ ثَنِيَّتُهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((يَا أَنَسُ! كِتَابُ اللَّهِ: الْقِصَاصُ)). فَرَضِيَ الْقَوْمُ، فَعَفَوْا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم: ((إِنَّ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ مَنْ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لَأَبَرَّهُ)). مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ، وَاللَّفْظُ لِلْبُخَارِيِّ.
کتاب: جرائم سے متعلق احکام و مسائل
باب: جرائم سے متعلق احکام و مسائل
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کی پھوپھی رُبَیِّع بنت نضر نے ایک لڑکی کا سامنے والا دانت توڑ دیا۔ رُبَیِّع کے رشتہ داروں نے اس سے معافی طلب کی تو لڑکی والوں نے انکار کر دیا۔ پھر انھوں نے دیت دینے کی پیش کش کی تو اسے بھی انھوں نے رد کر دیا‘ چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور قصاص کے سوا کسی بھی چیز کو لینے سے انکار کر دیا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصاص کا حکم فرما دیا۔ یہ سن کر حضرت انس بن نضر نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیا رُبَیِّعکا دانت توڑا جائے گا؟ نہیں‘ اس ذات اقدس کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر مبعوث فرمایا ہے! اس کا دانت نہیں توڑا جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے انس! اللہ کا فیصلہ تو قصاص ہی ہے۔‘‘ اتنے میں وہ لوگ رضامند ہوگئے اور انھوں نے معافی دے دی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں کہ اگر وہ اللہ کی قسم کھا لیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم کو پورا فرما دیتا ہے۔‘‘ (بخاری و مسلم۔ اور یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔)
تشریح :
اس حدیث سے حضرت انس بن نضر رضی اللہ عنہ کی فضیلت معلوم ہوئی کہ انھوں نے جو قسم کھائی‘ اللہ نے اسے پورا فرما دیا۔ انھوں نے اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسے کی بنا پر قسم کھائی تھی جسے اللہ نے پورا کر دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی تردید اور اعراض مقصود نہ تھا۔ ایسا ہوتا تو حضرت انس رضی اللہ عنہ ارشاد نبوی کے نافرمان شمار ہوتے جو کہ ایک صحابی کی شان کے ہر گز لائق نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کی تعریف فرمانا ان کی فضیلت و منقبت کا کھلا ثبوت ہے۔ راوئ حدیث: [ حضرت رُبَیِّع بنت نضر رضی اللہ عنہا ] ’’را‘‘ پر ضمہ‘ ’’با ‘‘پر فتحہ اور ’’یا‘‘ کے نیچے کسرہ اور تشدید ہے۔ یہ نضر بن ضمضم بن زید بن حرام کی بیٹی‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی پھوپھی اور حارثہ بن سراقہ‘ جو غزوۂ بدر میں جام شہادت نوش فرما کر خلد بریں کے مکین بن گئے ‘ کی والدہ تھیں۔ [حضرت انس بن نضر رضی اللہ عنہ ] یہ حضرت رُبَیِّع کے بھائی اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے چچا تھے۔ یہ غزوۂ بدر میں شریک نہیں ہو سکے تھے۔ اس کا انھیں بڑا افسوس تھا۔ جنگ احد کے روز مسلمانوں کے رویے پر اللہ تعالیٰ سے معذرت کرتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے مشرکین کی صف کی جانب بڑھے کہ میں تو اُحد کے ورے جنت کی خوشبو محسوس کر رہا ہوں۔ اس کے بعد خوب لڑے اور شہید ہو گئے۔
تخریج :
أخرجه البخاري، الصلح، باب الصلح في الدية، حديث:2703، ومسلم، القسامة، باب إثبات القصاص في الأسنان وما في معناها، حديث:1675.
اس حدیث سے حضرت انس بن نضر رضی اللہ عنہ کی فضیلت معلوم ہوئی کہ انھوں نے جو قسم کھائی‘ اللہ نے اسے پورا فرما دیا۔ انھوں نے اللہ تعالیٰ پر کامل بھروسے کی بنا پر قسم کھائی تھی جسے اللہ نے پورا کر دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی تردید اور اعراض مقصود نہ تھا۔ ایسا ہوتا تو حضرت انس رضی اللہ عنہ ارشاد نبوی کے نافرمان شمار ہوتے جو کہ ایک صحابی کی شان کے ہر گز لائق نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کی تعریف فرمانا ان کی فضیلت و منقبت کا کھلا ثبوت ہے۔ راوئ حدیث: [ حضرت رُبَیِّع بنت نضر رضی اللہ عنہا ] ’’را‘‘ پر ضمہ‘ ’’با ‘‘پر فتحہ اور ’’یا‘‘ کے نیچے کسرہ اور تشدید ہے۔ یہ نضر بن ضمضم بن زید بن حرام کی بیٹی‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی پھوپھی اور حارثہ بن سراقہ‘ جو غزوۂ بدر میں جام شہادت نوش فرما کر خلد بریں کے مکین بن گئے ‘ کی والدہ تھیں۔ [حضرت انس بن نضر رضی اللہ عنہ ] یہ حضرت رُبَیِّع کے بھائی اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے چچا تھے۔ یہ غزوۂ بدر میں شریک نہیں ہو سکے تھے۔ اس کا انھیں بڑا افسوس تھا۔ جنگ احد کے روز مسلمانوں کے رویے پر اللہ تعالیٰ سے معذرت کرتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے مشرکین کی صف کی جانب بڑھے کہ میں تو اُحد کے ورے جنت کی خوشبو محسوس کر رہا ہوں۔ اس کے بعد خوب لڑے اور شہید ہو گئے۔