كِتَابُ الْجِنَايَاتِ بَابُ الْجِنَايَاتِ ضعيف وَعَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ; - رضي الله عنه: أَنَّ رَجُلًا طَعَنَ رَجُلًا بِقَرْنٍ فِي رُكْبَتِهِ، فَجَاءَ إِلَى النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - فَقَالَ: أَقِدْنِي. فَقَالَ: ((حَتَّى تَبْرَأَ)). ثُمَّ جَاءَ إِلَيْهِ. فَقَالَ: أَقِدْنِي، فَأَقَادَهُ، ثُمَّ جَاءَ إِلَيْهِ. فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! عَرِجْتُ، فَقَالَ: ((قَدْ نَهَيْتُكَ فَعَصَيْتَنِي، فَأَبْعَدَكَ اللَّهُ، وَبَطَلَ عَرَجُكَ)). ثُمَّ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - ((أَنْ يُقْتَصَّ مِنْ جُرْحٍ حَتَّى يَبْرَأَ صَاحِبُهُ)). رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَالدَّارَقُطْنِيُّ، وَأُعِلَّ بِالْإِرْسَالِ.
کتاب: جرائم سے متعلق احکام و مسائل
باب: جرائم سے متعلق احکام و مسائل
حضرت عمرو بن شعیب نے اپنے والد سے اور انھوں نے اپنے دادا سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے دوسرے کے گھٹنے میں سینگ چبھو دیا۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: مجھے اس سے قصاص دلوائیں۔ آپ نے فرمایا: ’’(نہیں!) حتیٰ کہ تو شفایاب ہو جائے۔‘‘ وہ پھر آپ کے پاس آیا اور بولا: مجھے قصاص دلوائیں۔ آپ نے اسے قصاص دلوا دیا۔ اس کے بعد وہ پھر آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! میں لنگڑا ہوگیا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’میں نے تجھے منع کیا تھا لیکن تو نے میری نافرمانی کی۔ اللہ تعالیٰ تجھے دور کرے اور تیرا لنگڑا پن باطل ہو گیا۔‘‘ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زخمی کے شفایاب ہونے سے پہلے زخم کا قصاص لینے سے منع فرما دیا۔ (اس روایت کو احمد اور دارقطنی نے روایت کیا ہے اور اسے مرسل ہونے کی وجہ سے معلول کہا گیا ہے۔)
تشریح :
1. اس حدیث کی رو سے زخموں کی دیت اس وقت لی جانی چاہیے جب زخم مندمل ہو جائیں اور زخمی صحت یاب ہو جائے۔ جمہور ائمہ رحمہم اللہ کے نزدیک یہ انتظار کرنا واجب ہے اور امام شافعی رحمہ اللہ اسے مستحب کہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عین ممکن ہے زخم خراب صورت اختیار کر لے اور اسی بنا پر وہ عضو ضائع ہو جائے جبکہ ان دونوں صورتوں میں دیت الگ الگ ہے۔ 2. مذکورہ بالا واقعہ میں اس آدمی نے بے صبری اور عجلت سے کام لیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر عمل نہ کیا تو اسے صرف پانچ اونٹ ملے‘ حالانکہ جب وہ زخم کی خرابی کی وجہ سے لنگڑا ہوگیا تھا تو اس وقت وہ پچاس اونٹوں کا مستحق تھا۔ بے صبری ‘ عجلت پسندی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر عدم توجہ کے نتیجے میں اسے صرف پانچ اونٹوں پر اکتفا کرنا پڑا۔ 3. مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے‘ تاہم معناً صحیح ہے کیونکہ دیگر روایات سے بھی مسئلۂ مذکورہ کی تائید ہوتی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد : (۱۱ /۶۰۷‘ ۶۰۸)
تخریج :
أخرجه أحمد:2 /217، والدارقطني: 3 /88، ابن جريج مدلس وعنعن.
1. اس حدیث کی رو سے زخموں کی دیت اس وقت لی جانی چاہیے جب زخم مندمل ہو جائیں اور زخمی صحت یاب ہو جائے۔ جمہور ائمہ رحمہم اللہ کے نزدیک یہ انتظار کرنا واجب ہے اور امام شافعی رحمہ اللہ اسے مستحب کہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عین ممکن ہے زخم خراب صورت اختیار کر لے اور اسی بنا پر وہ عضو ضائع ہو جائے جبکہ ان دونوں صورتوں میں دیت الگ الگ ہے۔ 2. مذکورہ بالا واقعہ میں اس آدمی نے بے صبری اور عجلت سے کام لیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر عمل نہ کیا تو اسے صرف پانچ اونٹ ملے‘ حالانکہ جب وہ زخم کی خرابی کی وجہ سے لنگڑا ہوگیا تھا تو اس وقت وہ پچاس اونٹوں کا مستحق تھا۔ بے صبری ‘ عجلت پسندی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر عدم توجہ کے نتیجے میں اسے صرف پانچ اونٹوں پر اکتفا کرنا پڑا۔ 3. مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے‘ تاہم معناً صحیح ہے کیونکہ دیگر روایات سے بھی مسئلۂ مذکورہ کی تائید ہوتی ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد : (۱۱ /۶۰۷‘ ۶۰۸)