بلوغ المرام - حدیث 1

کِتَابُ الطَّھَارَۃِ بَابُ الْمِيَاهِ صحيح عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ - رضي الله عنه - قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - فِي الْبَحْرِ: ((هُوَ الطَّهُورُ مَاؤُهُ الْحِلُّ مَيْتَتُهُ)). أَخْرَجَهُ الْأَرْبَعَةُ، وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَاللَّفْظُ لَهُ، وَصَحَّحَهُ ابْنُ خُزَيْمَةَ وَالتِّرْمِذِيُّ، وَرَوَاهُ مَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ.

ترجمہ - حدیث 1

کتاب: طہارت سے متعلق احکام ومسائل باب: پانی کے احکام ومسائل (مختلف ذرائع سے حاصل شدہ پانی کا بیان) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمندر کے (پانی کے) متعلق (ایک شخص کے استفسار کے جواب میں) فرمایا: ’’اس کا پانی پاک کرنے والا ہے اور اس کا مردار حلال ہے۔‘‘ (اس حدیث کو چاروں نے اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔ (متن حدیث کے) الفاظ ابن ابی شیبہ کے ہیں۔ ابن خزیمہ اور ترمذی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ علاوہ ازیں اس روایت کو مالک‘ شافعی اور احمد رحمہم اللہ نے بھی روایت کیاہے۔)
تشریح : 1.یہ حدیث دراصل ایک سائل کے سوال کے جواب میں ارشاد فرمائی گئی ہے جسے امام مالک رحمہ اللہ وغیرہ نے یوں روایت کیا ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم سمندر میں سفر کرتے ہیں‘ ہمارے ساتھ تھوڑا بہت پانی ہوتا ہے‘ اگر ہم اس سے وضو کریں تو پیاسے رہ جاتے ہیں‘ تو کیا ہم سمندر کے پانی سے وضو کر سکتے ہیں؟ تو اس کے جواب میں آپ نے فرمایا: ’’وہ پانی پاک ہے۔‘‘(الموطأ‘ (یحییٰ): ۱ / ۲۲‘ وسنن أبي داود‘ الطھارۃ‘ باب الوضوء بماء البحر‘ حدیث: ۸۳)۔ 2. یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ سمندری پانی مطلقاً پاک ہے‘ اس میں کسی قسم کی تفصیل اور تقسیم نہیں ہے‘ نیز یہ کہ سمندری جانور بھی حلال ہیں‘ خواہ وہ کسی بھی شکل کے ہوں۔ امام مالک‘ امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ کی یہی رائے ہے‘ البتہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سمندری جانوروں میں سے صرف مچھلی کو حلال سمجھتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سائل کو سمندری پانی کی حلت کے ساتھ ساتھ بغیر سائل کے دریافت کیے‘ اس میں طبعی موت مرے ہوئے جانور کی حلت بھی مزید بتا دی‘ اس لیے کہ جو آدمی سمندری پانی کی حلت کے متعلق شک میں مبتلا ہو سکتا ہے تو وہ اس میں مرے ہوئے جانور کی حلت کے بارے میں اس سے کہیں زیادہ شک وشبہ میں پڑ سکتا ہے‘ خاص کر جب کہ قرآن مجید میں مردار کی حرمت نص سے واضح ہے اور اس کی تفصیل بیان نہیں کی گئی اور یہ بات معلوم ہے کہ سمندر میں سفر کرنے والا اس صورتحال میں مبتلا ہو سکتاہے‘ لہٰذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب حکمت و دانائی اور شفقت پر مبنی ہے۔ 3. یہ سائل کون تھا؟ اس کے بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ بعض نے اس کا نام عبداللہ مدلجی رضی اللہ عنہ کہا ہے اور بعض نے عبدالعرکی رضی اللہ عنہ کہا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ عبیدالعرکی رضی اللہ عنہ تھا اور عَرَکِي (’’عین‘‘ اور ’’را‘‘دونوں پر فتحہ ہے۔) [صَیَّادُ السَّمَک] مچھلیاں پکڑنے والے کو کہتے ہیں‘ یعنی مچھیرا ‘ پھر مچھلیاں پکڑنے کی مناسبت سے اس لفظ کا اطلاق ملاحوں‘ یعنی کشتی بانوں پر بھی کر دیا جاتا ہے اگرچہ ان کا اصل نام عَرَک نہیں ہے۔ 4.اس حدیث سے ثابت ہوا کہ سمندری پانی پاک ہے۔ اس سے وضو کرنا اور اسے (صاف کر کے) اپنے استعمال میں لانا صحیح ہے۔ 5 .اسی طرح یہ بھی ثابت ہوا کہ جو جانور صرف سمندر کے ہیں (سمندر کے باہر زندہ نہیں رہ سکتے) وہ سب حلال ہیں‘ چاہے سمندر میں مر جائیں یا نکالنے کے بعد مر جائیں۔ 6.نیزسمندر میں سفر کرنا جائز ہے۔ راویٔ حدیث: [حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ] آپ وہ جلیل القدر صحابی ٔ رسول ہیں جن سے سب سے زیادہ احادیث نبویہ ہم تک پہنچی ہیں۔ صاحب ’’الاستیعاب‘‘ کی رائے کے مطابق ان کا نام عبداللہ یا عبدالرحمن تھا۔ قبیلہ ٔدوس سے تھے۔ خیبر والے سال ۶ ہجری میں مشرف بہ اسلام ہوئے اور ہر وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔ ۷۸ سال کی عمر پائی اور ۵۹ ہجری میں اس دنیائے فانی سے کوچ کیا اور مدینہ منورہ کے بقیع الغرقد (جنت البقیع) نامی قبرستان میں دفن کیے گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں مفتی کے فرائض انجام دیتے رہے اور مروان کی جانب سے مدینے کے گورنر بھی رہے۔ ان سے کم و بیش (۵۳۸۴) احادیث مروی ہیں اور ان سے احادیث بیان کرنے والوں کی تعداد (۸۰۰) سے زائد ہے۔ واللّٰہ أعلم۔
تخریج : أخرجه أبوداود، الطهارة، باب الوضوءبماء البحر، حديث:83، والترمذي، الطهارة، حديث:69، وابن ماجه، الطهارة، حديث:386، والنسائي، الطهارة، حديث:333، ومالك في الموطأ: 1 / 22، والشافعي في الأم:1 /7، وأحمد:2 /237، وابن أبي شيبة:1 /121،حديث: 1378، وابن خزيمة في صحيحه:1 / 59، حديث:111، وابن حبان، (الموارد)، حديث:119. 1.یہ حدیث دراصل ایک سائل کے سوال کے جواب میں ارشاد فرمائی گئی ہے جسے امام مالک رحمہ اللہ وغیرہ نے یوں روایت کیا ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم سمندر میں سفر کرتے ہیں‘ ہمارے ساتھ تھوڑا بہت پانی ہوتا ہے‘ اگر ہم اس سے وضو کریں تو پیاسے رہ جاتے ہیں‘ تو کیا ہم سمندر کے پانی سے وضو کر سکتے ہیں؟ تو اس کے جواب میں آپ نے فرمایا: ’’وہ پانی پاک ہے۔‘‘(الموطأ‘ (یحییٰ): ۱ / ۲۲‘ وسنن أبي داود‘ الطھارۃ‘ باب الوضوء بماء البحر‘ حدیث: ۸۳)۔ 2. یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ سمندری پانی مطلقاً پاک ہے‘ اس میں کسی قسم کی تفصیل اور تقسیم نہیں ہے‘ نیز یہ کہ سمندری جانور بھی حلال ہیں‘ خواہ وہ کسی بھی شکل کے ہوں۔ امام مالک‘ امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ کی یہی رائے ہے‘ البتہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سمندری جانوروں میں سے صرف مچھلی کو حلال سمجھتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سائل کو سمندری پانی کی حلت کے ساتھ ساتھ بغیر سائل کے دریافت کیے‘ اس میں طبعی موت مرے ہوئے جانور کی حلت بھی مزید بتا دی‘ اس لیے کہ جو آدمی سمندری پانی کی حلت کے متعلق شک میں مبتلا ہو سکتا ہے تو وہ اس میں مرے ہوئے جانور کی حلت کے بارے میں اس سے کہیں زیادہ شک وشبہ میں پڑ سکتا ہے‘ خاص کر جب کہ قرآن مجید میں مردار کی حرمت نص سے واضح ہے اور اس کی تفصیل بیان نہیں کی گئی اور یہ بات معلوم ہے کہ سمندر میں سفر کرنے والا اس صورتحال میں مبتلا ہو سکتاہے‘ لہٰذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب حکمت و دانائی اور شفقت پر مبنی ہے۔ 3. یہ سائل کون تھا؟ اس کے بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ بعض نے اس کا نام عبداللہ مدلجی رضی اللہ عنہ کہا ہے اور بعض نے عبدالعرکی رضی اللہ عنہ کہا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ عبیدالعرکی رضی اللہ عنہ تھا اور عَرَکِي (’’عین‘‘ اور ’’را‘‘دونوں پر فتحہ ہے۔) [صَیَّادُ السَّمَک] مچھلیاں پکڑنے والے کو کہتے ہیں‘ یعنی مچھیرا ‘ پھر مچھلیاں پکڑنے کی مناسبت سے اس لفظ کا اطلاق ملاحوں‘ یعنی کشتی بانوں پر بھی کر دیا جاتا ہے اگرچہ ان کا اصل نام عَرَک نہیں ہے۔ 4.اس حدیث سے ثابت ہوا کہ سمندری پانی پاک ہے۔ اس سے وضو کرنا اور اسے (صاف کر کے) اپنے استعمال میں لانا صحیح ہے۔ 5 .اسی طرح یہ بھی ثابت ہوا کہ جو جانور صرف سمندر کے ہیں (سمندر کے باہر زندہ نہیں رہ سکتے) وہ سب حلال ہیں‘ چاہے سمندر میں مر جائیں یا نکالنے کے بعد مر جائیں۔ 6.نیزسمندر میں سفر کرنا جائز ہے۔ راویٔ حدیث: [حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ] آپ وہ جلیل القدر صحابی ٔ رسول ہیں جن سے سب سے زیادہ احادیث نبویہ ہم تک پہنچی ہیں۔ صاحب ’’الاستیعاب‘‘ کی رائے کے مطابق ان کا نام عبداللہ یا عبدالرحمن تھا۔ قبیلہ ٔدوس سے تھے۔ خیبر والے سال ۶ ہجری میں مشرف بہ اسلام ہوئے اور ہر وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔ ۷۸ سال کی عمر پائی اور ۵۹ ہجری میں اس دنیائے فانی سے کوچ کیا اور مدینہ منورہ کے بقیع الغرقد (جنت البقیع) نامی قبرستان میں دفن کیے گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت میں مفتی کے فرائض انجام دیتے رہے اور مروان کی جانب سے مدینے کے گورنر بھی رہے۔ ان سے کم و بیش (۵۳۸۴) احادیث مروی ہیں اور ان سے احادیث بیان کرنے والوں کی تعداد (۸۰۰) سے زائد ہے۔ واللّٰہ أعلم۔