‌صحيح البخاري - حدیث 996

کِتَابُ الوِترِ بَابُ سَاعَاتِ الوِتْرِ صحيح حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي قَالَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ قَالَ حَدَّثَنِي مُسْلِمٌ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كُلَّ اللَّيْلِ أَوْتَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَانْتَهَى وِتْرُهُ إِلَى السَّحَرِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 996

کتاب: نماز وتر کے مسائل کا بیان باب: وتر کےاوقات کا بیان ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے مسلم بن کیسان نے بیان کیا، ان سے مسروق نے، ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے ہر حصہ میں بھی وتر پڑھی ہے اور اخیر میں آپ کا وتر صبح کے قریب پہنچا۔
تشریح : دوسری روایتوں میں ہے کہ آپ نے وتر اول شب میں بھی پڑھی اور درمیان شب میں بھی اور آخر شب میں بھی۔ گویا عشاءکے بعد سے صبح صادق کے پہلے تک وتر پڑھنا آپ سے ثابت ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ مختلف حالات میں آپ نے وتر مختلف اوقات میں پڑھے۔ غالباً تکلیف اور مرض وغیرہ میں اول شب میں پڑھتے تھے اور مسافرت کی حالت میں درمیان شب میں لیکن عام معمول آپ کا اسے آخر شب ہی میں پڑھنے کا تھا ( تفہیم البخاری ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی آسانی کے لیے عشاءکے بعد رات میں جب بھی ممکن ہو وتر ادا کرنا جائز قرار دیا۔ دوسری روایتوں میں ہے کہ آپ نے وتر اول شب میں بھی پڑھی اور درمیان شب میں بھی اور آخر شب میں بھی۔ گویا عشاءکے بعد سے صبح صادق کے پہلے تک وتر پڑھنا آپ سے ثابت ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ مختلف حالات میں آپ نے وتر مختلف اوقات میں پڑھے۔ غالباً تکلیف اور مرض وغیرہ میں اول شب میں پڑھتے تھے اور مسافرت کی حالت میں درمیان شب میں لیکن عام معمول آپ کا اسے آخر شب ہی میں پڑھنے کا تھا ( تفہیم البخاری ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی آسانی کے لیے عشاءکے بعد رات میں جب بھی ممکن ہو وتر ادا کرنا جائز قرار دیا۔