‌صحيح البخاري - حدیث 992

کِتَابُ الوِترِ بَابُ مَا جَاءَ فِي الوِتْرِ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ مَخْرَمَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ عَنْ كُرَيْبٍ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ بَاتَ عِنْدَ مَيْمُونَةَ وَهِيَ خَالَتُهُ فَاضْطَجَعْتُ فِي عَرْضِ وِسَادَةٍ وَاضْطَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَهْلُهُ فِي طُولِهَا فَنَامَ حَتَّى انْتَصَفَ اللَّيْلُ أَوْ قَرِيبًا مِنْهُ فَاسْتَيْقَظَ يَمْسَحُ النَّوْمَ عَنْ وَجْهِهِ ثُمَّ قَرَأَ عَشْرَ آيَاتٍ مِنْ آلِ عِمْرَانَ ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى شَنٍّ مُعَلَّقَةٍ فَتَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي فَصَنَعْتُ مِثْلَهُ فَقُمْتُ إِلَى جَنْبهِ فَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى رَأْسِي وَأَخَذَ بِأُذُنِي يَفْتِلُهَا ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ أَوْتَرَ ثُمَّ اضْطَجَعَ حَتَّى جَاءَهُ الْمُؤَذِّنُ فَقَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الصُّبْحَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 992

کتاب: نماز وتر کے مسائل کا بیان باب: وتر کا بیان ہم سے عبد اللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے مخرمہ بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے کریب نے اور انہیں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ آپ ایک رات اپنی خالہ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے یہاں سوئے ( آپ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ) میں بستر کے عرض میں لیٹ گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی بیوی لمبائی میں لیٹیں، آپ سو گئے جب آدھی رات گزر گئی یا اس کے لگ بھگ تو آپ بیدار ہوئے نیند کے اثر کو چہرہ مبارک پر ہاتھ پھیر کر آپ نے دور کیا۔ اس کے بعد آل عمران کی دس آیتیں پڑھیں۔ پھر ایک پرانی مشک پانی کی بھری ہوئی لٹک رہی تھی۔ آپ اس کے پاس گئے اور اچھی طرح وضو کیا اور نماز کے لیے کھڑے ہوگئے۔ میں نے بھی ایسا ہی کیا۔ آپ پیار سے اپنا داہنا ہاتھ میرے سر رکھ کر اور میرا کان پکڑ کر اسے ملنے لگے۔ پھر آپ نے دو رکعت نماز پڑھی پھر دو رکعت پھر دو رکعت پھر دو رکعت پھر دو رکعت پھر دو رکعت سب بارہ رکعتیں پھر ایک رکعت وتر پڑھ کر آپ لیٹ گئے، یہاں تک کہ مؤذن صبح صادق کی اطلاع دینے آیا تو آپ نے پھر کھڑے ہو کر دو رکعت سنت نماز پڑھی۔ پھر باہر تشریف لائے اور صبح کی نماز پڑھائی۔
تشریح : بعض محدثین نے لکھا ہے کہ چونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما بچے تھے۔ اس لیے لا علمی کی وجہ سے بائیں طرف کھڑے ہو گئے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا کان بائیں طرف سے دائیں طرف کرنے کے لیے پکڑا تھا۔ اس تفصیل کے ساتھ بھی روایتوں میںذکر ہے۔ لیکن ایک دوسری روایت میں ہے کہ میرا کان پکڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس لیے ملنے لگے تھے تاکہ رات کی تاریکی میں آپ کے دست مبارک سے میں مانوس ہو جاؤں اور گھبراہٹ نہ ہو، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں روایتیں الگ ہیں۔ آپ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کا کان بائیں سے دائیں طرف کرنے کے لیے بھی پکڑا تھا اور پھر تاریکی میں انہیں مانوس کرنے کے لیے آپ کا کان ملنے بھی لگے تھے۔آپ کو آپ کے والد حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سونے کے لیے بھیجا تھاتاکہ آپ کی رات کے وقت کی عبادت کی تفصیل ایک عینی شاہد کے ذریعہ معلوم کریں چونکہ آپ بچے تھے اور پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ان کے یہاں سونے کی باری تھی۔ آپ بے تکلفی کے ساتھ چلے گئے اور وہیں رات بھر رہے۔ بچپنے کے باوجود انتہائی ذکی فہیم تھے۔ اس لیے ساری تفصیلات یادرکھیں ( تفہیم البخاری ) یہ نماز تہجد تھی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دوکعت کرکے بارہ رکعت کی تکمیل فرمائی پھر ایک رکعت وتر پڑھا۔ اس طرح آپ نے تہجد کی تیرہ رکعتیں ادا کیں مطابق بیان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ آپ کی رات کی نماز گیارہ اور تیرہ سے کبھی زیادہ نہیں ہوئی۔ رمضان شریف میں اس کو تراویح کی شکل میں ادا کیا گیا، اس کی بھی ہمیشہ آٹھ رکعت سنت تین وتر یعنی کل گیارہ رکعات کا ثبوت ہے جیسا کہ پارہ میں مفصل گزر چکا ہے بعض محدثین نے لکھا ہے کہ چونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما بچے تھے۔ اس لیے لا علمی کی وجہ سے بائیں طرف کھڑے ہو گئے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کا کان بائیں طرف سے دائیں طرف کرنے کے لیے پکڑا تھا۔ اس تفصیل کے ساتھ بھی روایتوں میںذکر ہے۔ لیکن ایک دوسری روایت میں ہے کہ میرا کان پکڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس لیے ملنے لگے تھے تاکہ رات کی تاریکی میں آپ کے دست مبارک سے میں مانوس ہو جاؤں اور گھبراہٹ نہ ہو، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں روایتیں الگ ہیں۔ آپ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کا کان بائیں سے دائیں طرف کرنے کے لیے بھی پکڑا تھا اور پھر تاریکی میں انہیں مانوس کرنے کے لیے آپ کا کان ملنے بھی لگے تھے۔آپ کو آپ کے والد حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر سونے کے لیے بھیجا تھاتاکہ آپ کی رات کے وقت کی عبادت کی تفصیل ایک عینی شاہد کے ذریعہ معلوم کریں چونکہ آپ بچے تھے اور پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ان کے یہاں سونے کی باری تھی۔ آپ بے تکلفی کے ساتھ چلے گئے اور وہیں رات بھر رہے۔ بچپنے کے باوجود انتہائی ذکی فہیم تھے۔ اس لیے ساری تفصیلات یادرکھیں ( تفہیم البخاری ) یہ نماز تہجد تھی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دوکعت کرکے بارہ رکعت کی تکمیل فرمائی پھر ایک رکعت وتر پڑھا۔ اس طرح آپ نے تہجد کی تیرہ رکعتیں ادا کیں مطابق بیان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ آپ کی رات کی نماز گیارہ اور تیرہ سے کبھی زیادہ نہیں ہوئی۔ رمضان شریف میں اس کو تراویح کی شکل میں ادا کیا گیا، اس کی بھی ہمیشہ آٹھ رکعت سنت تین وتر یعنی کل گیارہ رکعات کا ثبوت ہے جیسا کہ پارہ میں مفصل گزر چکا ہے