كِتَابُ العِلْمِ بَابُ عِظَةِ الإِمَامِ النِّسَاءَ وَتَعْلِيمِهِنَّ صحيح حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَيُّوبَ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءً، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، قَالَ: أَشْهَدُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَوْ قَالَ عَطَاءٌ: أَشْهَدُ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - «خَرَجَ وَمَعَهُ بِلاَلٌ، فَظَنَّ أَنَّهُ لَمْ يُسْمِعْ فَوَعَظَهُنَّ وَأَمَرَهُنَّ بِالصَّدَقَةِ، فَجَعَلَتِ المَرْأَةُ تُلْقِي القُرْطَ وَالخَاتَمَ، وَبِلاَلٌ يَأْخُذُ فِي طَرَفِ ثَوْبِهِ» قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ: وَقَالَ: إِسْمَاعِيلُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عَطَاءٍ، وَقَالَ: عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَشْهَدُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
کتاب: علم کے بیان میں
باب: عورتوں کو تعلیم دینا
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے ایوب کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے عطاء بن ابی رباح سے سنا، انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر گواہی دیتا ہوں، یا عطاء نے کہا کہ میں ابن عباس پر گواہی دیتا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ( ایک مرتبہ عید کے موقع پر مردوں کی صفوں میں سے ) نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بلال رضی اللہ عنہ تھے۔ آپ کو خیال ہوا کہ عورتوں کو ( خطبہ اچھی طرح ) نہیں سنائی دیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں علیحدہ نصیحت فرمائی اور صدقے کا حکم دیا ( یہ وعظ سن کر ) کوئی عورت بالی ( اور کوئی عورت ) انگوٹھی ڈالنے لگی اور بلال رضی اللہ عنہ اپنے کپڑے کے دامن میں ( یہ چیزیں ) لینے لگے۔ اس حدیث کو اسماعیل بن علیہ نے ایوب سے روایت کیا، انھوں نے عطاء سے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یوں کہا کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر گواہی دیتا ہوں ( اس میں شک نہیں ہے ) امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ اگلا باب عام لوگوں سے متعلق تھا اور یہ حاکم اور امام سے متعلق ہے کہ وہ بھی عورتوں کو وعظ سنائے۔
تشریح :
اس حدیث سے مسئلہ باب کے ساتھ عورتوں کا عید گاہ میں جانا بھی ثابت ہوا۔ جولوگ اس کے مخالف ہیں ان کو معلوم ہونا چاہئیے کہ وہ ایسی چیز کا انکار کررہے ہیں جوآنحضرت کے زمانہ میں مروج تھی۔ یہ امر ٹھیک ہے کہ عورتیں پردہ اور ادب وشرم وحیا کے ساتھ جائیں۔ کیونکہ بے پردگی بہرحال بری ہے۔ مگرسنت نبوی کی مخالفت کرنا کسی طرح بھی زیبا نہیں ہے۔
اس حدیث سے مسئلہ باب کے ساتھ عورتوں کا عید گاہ میں جانا بھی ثابت ہوا۔ جولوگ اس کے مخالف ہیں ان کو معلوم ہونا چاہئیے کہ وہ ایسی چیز کا انکار کررہے ہیں جوآنحضرت کے زمانہ میں مروج تھی۔ یہ امر ٹھیک ہے کہ عورتیں پردہ اور ادب وشرم وحیا کے ساتھ جائیں۔ کیونکہ بے پردگی بہرحال بری ہے۔ مگرسنت نبوی کی مخالفت کرنا کسی طرح بھی زیبا نہیں ہے۔