‌صحيح البخاري - حدیث 974

کِتَابُ العِيدَيْنِ بَابُ خُرُوجِ النِّسَاءِ وَالحُيَّضِ إِلَى المُصَلَّى صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ قَالَ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ مُحَمَّدٍ عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ قَالَتْ أَمَرَنَا نَبِيُّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَنْ نُخْرِجَ الْعَوَاتِقَ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ وَعَنْ أَيُّوبَ عَنْ حَفْصَةَ بِنَحْوِهِ وَزَادَ فِي حَدِيثِ حَفْصَةَ قَالَ أَوْ قَالَتْ الْعَوَاتِقَ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ وَيَعْتَزِلْنَ الْحُيَّضُ الْمُصَلَّى

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 974

کتاب: عیدین کے مسائل کے بیان میں باب: عورتوں اور حیض والیوں کا عیدگاہ جانا ہم سے عبد اللہ بن عبد الوہاب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے محمد نے، ان سے ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے، آپ نے فرمایا کہ ہمیں حکم تھا کہ پردہ والی دوشیزاؤں کو عیدگاہ کے لئے نکالیں اور ایوب سختیانی نے حفصہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح روایت کی ہے۔ حفصہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ زیادتی ہے کہ دوشیزائیں اور پردہ والیاں ضرور ( عیدگاہ جائیں ) اور حائضہ نماز کی جگہ سے علیحدہ رہیں۔
تشریح : حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے عورتوں کے عیدین میں شرکت کرنے کے متعلق تفصیل سے صحیح احادیث کو نقل فرمایا ہے جن میں کچھ قیل وقال کی گنجائش ہی نہیں۔ متعدد روایات میں موجود ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جملہ بیویوں اور صاحبزادیوں کو عیدین کے لیے نکالتے تھے۔ یہاں تک فرمادیا کہ حیض والی بھی نکلیں اور وہ نماز سے دور رہ کر مسلمانوں کی دعاؤں میں شرکت کریں اور وہ بھی نکلیں جن کے پاس چادر نہ ہو، چاہئے کہ ان کی ہم جولیاں ان کو چادر یا دوپٹہ دے دیں۔ بہر حال عورتوں کا عیدگاہ میں شرکت کرنا ایک اہم ترین سنت اور اسلامی شعار ہے۔ جس سے شوکت اسلام کا مظاہرہ ہوتا ہے اور مرد عورت اور بچے میدان عید گاہ میں اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہو کر دعائیں کرتے ہیں۔ جن میں سے کسی ایک کی بھی دعا اگر قبولیت کا درجہ حاصل کر لے تو تمام حاضرین کے لیے باعث صد برکت ہوسکتی ہے۔ اس بارے میں کچھ لوگوں نے فرضی شکوک وشبہات اور مفروضہ خطرات کی بنا پر عورتوں کا عیدگاہ میں جانا مکروہ قرار دیا ہے۔ مگر یہ جملہ مفروضہ باتیں ہیں جن کی شرعا کوئی اصل نہیں ہے۔ عیدگاہ کے منتظمین کا فرض ہے کہ وہ پردے کا انتظام کریں اور ہر فساد و خطرہ کے انسداد کے لیے پہلے ہی سے بندوبست کر رکھیں۔ حضرت علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے اس بارے میں مفصل مدلل بحث کے بعد فرمایا ہے اما فی معناہ من الاحادیث قاضیۃ بمشروعیۃ خروج النساءفی العیدین الی المصلی من غیر فرق بین البکروالثیب والشابۃ والعجوز والحائض وغیرھا مالم تکن معتدۃ او کان فی خروجھا فتنۃ اوکان لھا عذر یعنی احادیث اس میں فیصلہ دے رہی ہیں کہ عورتوں کو عیدین میں مردوں کے ساتھ عیدگاہ میں شرکت کرنا مشروع ہے اور اس بارے میں شادی شدہ اور کنواری اور بوڑھی اور جوان اور حائضہ وغیرہ کا کوئی امتیاز نہیں ہے جب تک ان میں سے کوئی عدت میں نہ ہو یا ان کے نکلنے میں کوئی فتنہ کاڈر نہ ہو یا کوئی اور عذر نہ ہو تو بلا شک جملہ عورتوں کو عیدگاہ میں جانا مشروع ہے پھر فرماتے ہیں والقول بکراھیۃ الخروج علی الاطلاق رد للاحادیث الصحیحۃ بالاراءالفاسدۃ یعنی مطلقا عورتوں کے لیے عید گاہ میں جانے کو مکروہ قرار دینا یہ اپنی فاسد رایوں کی بنا پر احادیث صحیحہ کو رد کرنا ہے۔ آج کل جو علماءعیدین میں عورتوں کی شرکت ناجائز قرار دیتے ہیں، ان کو اتنا غور کرنے کی توفیق نہیں ہوتی کہ یہی مسلمان عورتیں بے تحاشا بازاروں میں آتی جاتی، میلوں عرسوں میں شریک ہوتیں اور بہت سی غریب عورتیں جو محنت مزدوری کرتی ہیں۔ جب ان سارے حالات میں یہ مفاسد مفروضہ سے بالاتر ہیں تو عید گاہ کی شرکت میں جبکہ وہاں جانے کے لیے باپردہ وباادب ہونا ضروری ہے کون سے فرضی خطرات کا تصور کر کے ان کے لیے عدم جواز کا فتوی لگایا جا سکتا ہے۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبید اللہ مبارکپوری رحمہ اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں، عورتوں کا عید گاہ میں عید کی نماز کے لیے جاناسنت ہے، شادی شدہ ہوں،یا غیر شادی شدہ جوان ہوں یاادھیڑیا بوڑھی، عن ام عطیۃ ان رسول اللہ صلی علیہ وسلم کان یخرج الابکار والعواتق وذوات الخدور والحیض فی العیدین فاما الحیض لیعتزلن المصلی ویشھدن دعوۃ المسلمین قالت احداھن یا رسول اللہ ان لم یکن لھا جلباب قال فلتصرھا اختھا من جلبابھا ( صحیحین وغیرہ ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عیدین میں دوشیزہ جوان کنواری حیض والی عورتوں کو عید گاہ جانے کا حکم دیتے تھے حیض والی عورتیں نماز سے الگ رہتیں اور مسلمانوں کی دعا میں شریک رہتیں۔ ایک عورت نے عرض کیا اگر کسی عورت کے پاس چادر نہ ہو تو آپ نے فرمایا کہ اس کی مسلمان بہن اپنی چادر میں لے جائے۔ جو لوگ کراہت کے قائل ہیں یا جوان یا بوڑھی کے درمیان فرق کر تے ہیں درحقیقت وہ صحیح حدیث کو اپنی فاسد اور باطل رایوں سے رد کر تے ہیں۔ حافظ نے فتح الباری میں اور ابن حزم نے اپنی محلیّ میں بالتفصیل مخالفین کے جوابات ذکر کئے ہیں عورتوں کو عید گاہ میں سخت پردہ کے ساتھ بغیر کسی قسم کی خوشبو لگائے اور بغیر بجنے والے زیوروں اور زینت کے لباس کے جانا چاہیے تاکہ فتنہ کا باعث نہ بنیں قال شیخنا فی شرح الترمذی لا دلیل علی منع الخروج الی العید للشواب مع الامن من المفاسد مما حدثن فی ھذا الزمان بل ھو مشروع لھن وھو القول الراجح انتھی یعنی امن کی حالت میں جوان عورتوں کو شرکت عیدین سے روکنا اس کے متعلق مانعین کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ وہ مشروع ہے اور قول راجح یہی ہے۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے عورتوں کے عیدین میں شرکت کرنے کے متعلق تفصیل سے صحیح احادیث کو نقل فرمایا ہے جن میں کچھ قیل وقال کی گنجائش ہی نہیں۔ متعدد روایات میں موجود ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جملہ بیویوں اور صاحبزادیوں کو عیدین کے لیے نکالتے تھے۔ یہاں تک فرمادیا کہ حیض والی بھی نکلیں اور وہ نماز سے دور رہ کر مسلمانوں کی دعاؤں میں شرکت کریں اور وہ بھی نکلیں جن کے پاس چادر نہ ہو، چاہئے کہ ان کی ہم جولیاں ان کو چادر یا دوپٹہ دے دیں۔ بہر حال عورتوں کا عیدگاہ میں شرکت کرنا ایک اہم ترین سنت اور اسلامی شعار ہے۔ جس سے شوکت اسلام کا مظاہرہ ہوتا ہے اور مرد عورت اور بچے میدان عید گاہ میں اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہو کر دعائیں کرتے ہیں۔ جن میں سے کسی ایک کی بھی دعا اگر قبولیت کا درجہ حاصل کر لے تو تمام حاضرین کے لیے باعث صد برکت ہوسکتی ہے۔ اس بارے میں کچھ لوگوں نے فرضی شکوک وشبہات اور مفروضہ خطرات کی بنا پر عورتوں کا عیدگاہ میں جانا مکروہ قرار دیا ہے۔ مگر یہ جملہ مفروضہ باتیں ہیں جن کی شرعا کوئی اصل نہیں ہے۔ عیدگاہ کے منتظمین کا فرض ہے کہ وہ پردے کا انتظام کریں اور ہر فساد و خطرہ کے انسداد کے لیے پہلے ہی سے بندوبست کر رکھیں۔ حضرت علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے اس بارے میں مفصل مدلل بحث کے بعد فرمایا ہے اما فی معناہ من الاحادیث قاضیۃ بمشروعیۃ خروج النساءفی العیدین الی المصلی من غیر فرق بین البکروالثیب والشابۃ والعجوز والحائض وغیرھا مالم تکن معتدۃ او کان فی خروجھا فتنۃ اوکان لھا عذر یعنی احادیث اس میں فیصلہ دے رہی ہیں کہ عورتوں کو عیدین میں مردوں کے ساتھ عیدگاہ میں شرکت کرنا مشروع ہے اور اس بارے میں شادی شدہ اور کنواری اور بوڑھی اور جوان اور حائضہ وغیرہ کا کوئی امتیاز نہیں ہے جب تک ان میں سے کوئی عدت میں نہ ہو یا ان کے نکلنے میں کوئی فتنہ کاڈر نہ ہو یا کوئی اور عذر نہ ہو تو بلا شک جملہ عورتوں کو عیدگاہ میں جانا مشروع ہے پھر فرماتے ہیں والقول بکراھیۃ الخروج علی الاطلاق رد للاحادیث الصحیحۃ بالاراءالفاسدۃ یعنی مطلقا عورتوں کے لیے عید گاہ میں جانے کو مکروہ قرار دینا یہ اپنی فاسد رایوں کی بنا پر احادیث صحیحہ کو رد کرنا ہے۔ آج کل جو علماءعیدین میں عورتوں کی شرکت ناجائز قرار دیتے ہیں، ان کو اتنا غور کرنے کی توفیق نہیں ہوتی کہ یہی مسلمان عورتیں بے تحاشا بازاروں میں آتی جاتی، میلوں عرسوں میں شریک ہوتیں اور بہت سی غریب عورتیں جو محنت مزدوری کرتی ہیں۔ جب ان سارے حالات میں یہ مفاسد مفروضہ سے بالاتر ہیں تو عید گاہ کی شرکت میں جبکہ وہاں جانے کے لیے باپردہ وباادب ہونا ضروری ہے کون سے فرضی خطرات کا تصور کر کے ان کے لیے عدم جواز کا فتوی لگایا جا سکتا ہے۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبید اللہ مبارکپوری رحمہ اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں، عورتوں کا عید گاہ میں عید کی نماز کے لیے جاناسنت ہے، شادی شدہ ہوں،یا غیر شادی شدہ جوان ہوں یاادھیڑیا بوڑھی، عن ام عطیۃ ان رسول اللہ صلی علیہ وسلم کان یخرج الابکار والعواتق وذوات الخدور والحیض فی العیدین فاما الحیض لیعتزلن المصلی ویشھدن دعوۃ المسلمین قالت احداھن یا رسول اللہ ان لم یکن لھا جلباب قال فلتصرھا اختھا من جلبابھا ( صحیحین وغیرہ ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عیدین میں دوشیزہ جوان کنواری حیض والی عورتوں کو عید گاہ جانے کا حکم دیتے تھے حیض والی عورتیں نماز سے الگ رہتیں اور مسلمانوں کی دعا میں شریک رہتیں۔ ایک عورت نے عرض کیا اگر کسی عورت کے پاس چادر نہ ہو تو آپ نے فرمایا کہ اس کی مسلمان بہن اپنی چادر میں لے جائے۔ جو لوگ کراہت کے قائل ہیں یا جوان یا بوڑھی کے درمیان فرق کر تے ہیں درحقیقت وہ صحیح حدیث کو اپنی فاسد اور باطل رایوں سے رد کر تے ہیں۔ حافظ نے فتح الباری میں اور ابن حزم نے اپنی محلیّ میں بالتفصیل مخالفین کے جوابات ذکر کئے ہیں عورتوں کو عید گاہ میں سخت پردہ کے ساتھ بغیر کسی قسم کی خوشبو لگائے اور بغیر بجنے والے زیوروں اور زینت کے لباس کے جانا چاہیے تاکہ فتنہ کا باعث نہ بنیں قال شیخنا فی شرح الترمذی لا دلیل علی منع الخروج الی العید للشواب مع الامن من المفاسد مما حدثن فی ھذا الزمان بل ھو مشروع لھن وھو القول الراجح انتھی یعنی امن کی حالت میں جوان عورتوں کو شرکت عیدین سے روکنا اس کے متعلق مانعین کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ وہ مشروع ہے اور قول راجح یہی ہے۔