‌صحيح البخاري - حدیث 97

كِتَابُ العِلْمِ بَابُ تَعْلِيمِ الرَّجُلِ أَمَتَهُ وَأَهْلَهُ صحيح أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ هُوَ ابْنُ سَلاَمٍ، حَدَّثَنَا المُحَارِبِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ حَيَّانَ، قَالَ: قَالَ عَامِرٌ الشَّعْبِيُّ: حَدَّثَنِي أَبُو بُرْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ثَلاَثَةٌ لَهُمْ أَجْرَانِ: رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الكِتَابِ، آمَنَ بِنَبِيِّهِ وَآمَنَ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالعَبْدُ المَمْلُوكُ إِذَا أَدَّى حَقَّ اللَّهِ وَحَقَّ مَوَالِيهِ، وَرَجُلٌ كَانَتْ عِنْدَهُ أَمَةٌ فَأَدَّبَهَا فَأَحْسَنَ تَأْدِيبَهَا، وَعَلَّمَهَا فَأَحْسَنَ تَعْلِيمَهَا، ثُمَّ أَعْتَقَهَا فَتَزَوَّجَهَا فَلَهُ أَجْرَانِ ، ثُمَّ قَالَ عَامِرٌ: أَعْطَيْنَاكَهَا بِغَيْرِ شَيْءٍ، قَدْ كَانَ يُرْكَبُ فِيمَا دُونَهَا إِلَى المَدِينَةِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 97

کتاب: علم کے بیان میں باب: مرد کا اپنی باندی اور گھر والوں کو تعلیم دینا ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں محاربی نے خبر دی، وہ صالح بن حیان سے بیان کرتے ہیں، انھوں نے کہا کہ عامر شعبی نے بیان کیا، کہا ان سے ابوبردہ نے اپنے باپ کے واسطے سے نقل کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین شخص ہیں جن کے لیے دو گنا اجر ہے۔ ایک وہ جو اہل کتاب سے ہو اور اپنے نبی پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور ( دوسرے ) وہ غلام جو اپنے آقا اور اللہ ( دونوں ) کا حق ادا کرے اور ( تیسرے ) وہ آدمی جس کے پاس کوئی لونڈی ہو۔ جس سے شب باشی کرتا ہے اور اسے تربیت دے تو اچھی تربیت دے، تعلیم دے تو عمدہ تعلیم دے، پھر اسے آزاد کر کے اس سے نکاح کر لے، تو اس کے لیے دو گنا اجر ہے۔ پھر عامر نے ( صالح بن حیان سے ) کہا کہ ہم نے یہ حدیث تمہیں بغیر اجرت کے سنا دی ہے ( ورنہ ) اس سے کم حدیث کے لیے مدینہ تک کا سفر کیا جاتا تھا۔
تشریح : حدیث سے باب کی مطابقت کے لیے لونڈی کا ذکر صریح موجود ہے اور بیوی کو اسی پر قیاس کیا گیا ہے۔ اہل کتاب سے یہود ونصاریٰ مراد ہیں۔ جنھوں نے اسلام قبول کیا۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تعلیم کے ساتھ تادیب یعنی ادب سکھانا اور عمدہ تربیت دینا بھی ضروری ہے۔ اگرعلم کے ساتھ عمدہ تربیت نہ ہوتوایسے علم سے پورا فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ یہ بھی ظاہر ہوا کہ اسلاف امت ایک ایک حدیث کے حصول کے لیے دوردراز کا سفر کرتے اور بے حد مشقتیں اٹھایا کرتے تھے۔ شارحین بخاری کہتے ہیں: وانما قال ہذا لیکون ذلک الحدیث عندہ بمنزلۃ عظیمۃ ویحفظہ باہتمام بلیغ فان من عادۃ الانسان ان الشیئی الذی یحصلہ من غیرمشقۃ لایعرف قدرہ ولایہتم بحفاظتہ یعنی عامر نے اپنے شاگرد صالح سے یہ اس لیے کہا کہ وہ حدیث کی قدر ومنزلت کو پہچانیں اور اسے اہتمام کے ساتھ یادرکھیں کیونکہ انسان کی عاد ت ہے کہ بغیر مشقت حاصل ہونے والی چیز کی وہ قدر نہیں کرتا اور نہ پورے طور پر اس کی حفاظت کرتا ہے۔ حدیث سے باب کی مطابقت کے لیے لونڈی کا ذکر صریح موجود ہے اور بیوی کو اسی پر قیاس کیا گیا ہے۔ اہل کتاب سے یہود ونصاریٰ مراد ہیں۔ جنھوں نے اسلام قبول کیا۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تعلیم کے ساتھ تادیب یعنی ادب سکھانا اور عمدہ تربیت دینا بھی ضروری ہے۔ اگرعلم کے ساتھ عمدہ تربیت نہ ہوتوایسے علم سے پورا فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ یہ بھی ظاہر ہوا کہ اسلاف امت ایک ایک حدیث کے حصول کے لیے دوردراز کا سفر کرتے اور بے حد مشقتیں اٹھایا کرتے تھے۔ شارحین بخاری کہتے ہیں: وانما قال ہذا لیکون ذلک الحدیث عندہ بمنزلۃ عظیمۃ ویحفظہ باہتمام بلیغ فان من عادۃ الانسان ان الشیئی الذی یحصلہ من غیرمشقۃ لایعرف قدرہ ولایہتم بحفاظتہ یعنی عامر نے اپنے شاگرد صالح سے یہ اس لیے کہا کہ وہ حدیث کی قدر ومنزلت کو پہچانیں اور اسے اہتمام کے ساتھ یادرکھیں کیونکہ انسان کی عاد ت ہے کہ بغیر مشقت حاصل ہونے والی چیز کی وہ قدر نہیں کرتا اور نہ پورے طور پر اس کی حفاظت کرتا ہے۔