‌صحيح البخاري - حدیث 968

کِتَابُ العِيدَيْنِ بَابُ التَّبْكِيرِ إِلَى العِيدِ صحيح حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ زُبَيْدٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ الْبَرَاءِ قَالَ خَطَبَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ النَّحْرِ قَالَ إِنَّ أَوَّلَ مَا نَبْدَأُ بِهِ فِي يَوْمِنَا هَذَا أَنْ نُصَلِّيَ ثُمَّ نَرْجِعَ فَنَنْحَرَ فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَقَدْ أَصَابَ سُنَّتَنَا وَمَنْ ذَبَحَ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ فَإِنَّمَا هُوَ لَحْمٌ عَجَّلَهُ لِأَهْلِهِ لَيْسَ مِنْ النُّسُكِ فِي شَيْءٍ فَقَامَ خَالِي أَبُو بُرْدَةَ بْنُ نِيَارٍ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا ذَبَحْتُ قَبْلَ أَنْ أُصَلِّيَ وَعِنْدِي جَذَعَةٌ خَيْرٌ مِنْ مُسِنَّةٍ قَالَ اجْعَلْهَا مَكَانَهَا أَوْ قَالَ اذْبَحْهَا وَلَنْ تَجْزِيَ جَذَعَةٌ عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 968

کتاب: عیدین کے مسائل کے بیان میں باب: عید کی نماز کے لئے سویرے جانا ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے زبید سے بیان کیا، ان سے شعبی نے، ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے، انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن خطبہ دیا اور آپ نے فرمایا کہ اس دن سب سے پہلے ہمیں نماز پڑھنی چاہیے پھر ( خطبہ کے بعد ) واپس آ کر قربانی کرنی چاہیے جس نے اس طرح کیا اس نے ہماری سنت کے مطابق کیا اور جس نے نماز سے پہلے ذبح کر دیا تو یہ ایک ایسا گوشت ہوگا جسے اس نے اپنے گھر والوں کے لیے جلدی سے تیار کر لیا ہے، یہ قربانی قطعا نہیں۔ اس پر میرے ماموں ابوبردہ بن نیار نے کھڑے ہو کر کہا کہ یا رسول اللہ! میں نے تو نماز کے پڑھنے سے پہلے ہی ذبح کر دیا۔ البتہ میرے پاس ایک سال کی ایک پٹھیا ہے جو دانت نکلی بکری سے بھی زیادہ بہتر ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے بدلہ میں اسے سمجھ لویا یہ فرمایا کہ اسے ذبح کر لو اور تمہارے بعد یہ ایک سال کی پٹھیا کسی کے لیے کافی نہیں ہوگی۔
تشریح : اس حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے یوں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اس دن پہلے جو کام ہم کرتے ہیں وہ نماز ہے۔ اس سے یہ نکلا کہ عید کی نماز صبح سویرے پڑھنا چاہیے کیونکہ جو کوئی دیر کر کے پڑھے گا اور وہ نماز سے پہلے دوسرے کام کرے گا تو پہلا کام اس کا اس دن نماز نہ ہوگا۔ یہ استنباط حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کی گہر ی بصیرت کی دلیل ہے۔ ( رحمہ اللہ ) اس صورت میں آپ نے خاص ان ہی ابو بردہ بن نیار نامی صحابی کے لیے جذعہ کی قربانی کی اجازت بخشی، ساتھ ہی یہ بھی فر مادیا کہ تیرے بعد یہ کسی اور کے لیے کافی نہ ہوگی۔یہاں جذعہ سے ایک سال کی بکری مراد ہے لفظ جذعہ ایک سال کی بھیڑ بکری پر بولا جاتا ہے۔حضرت علامہ شوکانی فرماتے ہیں الجذعۃ من الضان مالہ سنۃ تامۃ ھذا ھو الاشھر عن اھل اللغۃ وجمہور اھل العلم من غیر ھم یعنی جذعہ وہ ہے جس کی عمر پر پورا ایک سال گزر چکا ہو۔ اہل سنت اور جمہور اہل علم سے یہی منقول ہے۔ بعض چھ اور آٹھ اور دس ماہ کی بکری پر بھی لفظ جذعہ بولتے ہیں۔ دیوبندی تراجم بخاری میں اس مقام پر جگہ جگہ جذعہ کا ترجمہ چار مہینے کی بکری کا کیا گیا ہے۔ تفہیم البخاری میں ایک جگہ نہیں بلکہ متعدد مقامات پر چار مہینے کی بکری لکھا ہوا موجود ہے۔ علامہ شوکانی کی تصریح بالا کے مطابق یہ غلط ہے اسی لیے اہل حدیث تراجم بخاری میں ہر جگہ ایک سال کی بکری کے ساتھ ترجمہ کیا گیا ہے۔ لفظ جذعہ کا اطلاق مسلک حنفی میں بھی چھ ماہ کی بکری پر کیا گیاہے دیکھو تسہیل القاری، پ:4ص:400 مگر چار ماہ کی بکری پر لفظ جذعہ یہ خود مسلک حنفی کے بھی خلاف ہے۔ قسطلانی شرح بخاری، ص: 117 مطبوعہ نول کشور میں ہے ( جذعۃمن المعز ذات سنۃ ) یعنی جذعہ ایک سال کی بکری کو کہا جاتا ہے۔ اس حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے یوں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اس دن پہلے جو کام ہم کرتے ہیں وہ نماز ہے۔ اس سے یہ نکلا کہ عید کی نماز صبح سویرے پڑھنا چاہیے کیونکہ جو کوئی دیر کر کے پڑھے گا اور وہ نماز سے پہلے دوسرے کام کرے گا تو پہلا کام اس کا اس دن نماز نہ ہوگا۔ یہ استنباط حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کی گہر ی بصیرت کی دلیل ہے۔ ( رحمہ اللہ ) اس صورت میں آپ نے خاص ان ہی ابو بردہ بن نیار نامی صحابی کے لیے جذعہ کی قربانی کی اجازت بخشی، ساتھ ہی یہ بھی فر مادیا کہ تیرے بعد یہ کسی اور کے لیے کافی نہ ہوگی۔یہاں جذعہ سے ایک سال کی بکری مراد ہے لفظ جذعہ ایک سال کی بھیڑ بکری پر بولا جاتا ہے۔حضرت علامہ شوکانی فرماتے ہیں الجذعۃ من الضان مالہ سنۃ تامۃ ھذا ھو الاشھر عن اھل اللغۃ وجمہور اھل العلم من غیر ھم یعنی جذعہ وہ ہے جس کی عمر پر پورا ایک سال گزر چکا ہو۔ اہل سنت اور جمہور اہل علم سے یہی منقول ہے۔ بعض چھ اور آٹھ اور دس ماہ کی بکری پر بھی لفظ جذعہ بولتے ہیں۔ دیوبندی تراجم بخاری میں اس مقام پر جگہ جگہ جذعہ کا ترجمہ چار مہینے کی بکری کا کیا گیا ہے۔ تفہیم البخاری میں ایک جگہ نہیں بلکہ متعدد مقامات پر چار مہینے کی بکری لکھا ہوا موجود ہے۔ علامہ شوکانی کی تصریح بالا کے مطابق یہ غلط ہے اسی لیے اہل حدیث تراجم بخاری میں ہر جگہ ایک سال کی بکری کے ساتھ ترجمہ کیا گیا ہے۔ لفظ جذعہ کا اطلاق مسلک حنفی میں بھی چھ ماہ کی بکری پر کیا گیاہے دیکھو تسہیل القاری، پ:4ص:400 مگر چار ماہ کی بکری پر لفظ جذعہ یہ خود مسلک حنفی کے بھی خلاف ہے۔ قسطلانی شرح بخاری، ص: 117 مطبوعہ نول کشور میں ہے ( جذعۃمن المعز ذات سنۃ ) یعنی جذعہ ایک سال کی بکری کو کہا جاتا ہے۔