‌صحيح البخاري - حدیث 967

کِتَابُ العِيدَيْنِ بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنْ حَمْلِ السِّلاَحِ فِي العِيدِ وَالحَرَمِ صحيح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَعْقُوبَ قَالَ حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ دَخَلَ الْحَجَّاجُ عَلَى ابْنِ عُمَرَ وَأَنَا عِنْدَهُ فَقَالَ كَيْفَ هُوَ فَقَالَ صَالِحٌ فَقَالَ مَنْ أَصَابَكَ قَالَ أَصَابَنِي مَنْ أَمَرَ بِحَمْلِ السِّلَاحِ فِي يَوْمٍ لَا يَحِلُّ فِيهِ حَمْلُهُ يَعْنِي الْحَجَّاجَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 967

کتاب: عیدین کے مسائل کے بیان میں باب: عید کے دن اور حرم کے اندر ہتھیار باندھنا ہم سے احمد بن یعقوب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسحاق بن سعید بن عمرو بن سعید بن عاص نے اپنے باپ سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ حجاج عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا میں بھی آپ کی خدمت میں موجود تھا۔ حجاج نے مزاج پوچھا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اچھا ہوں۔ اس نے پوچھا کہ آپ کو یہ برچھا کس نے مارا؟ ابن عمر نے فرمایا کہ مجھے اس شخص نے مارا جس نے اس دن ہتھیار ساتھ لے جانے کی اجازت دی جس دن ہتھیار ساتھ نہیں لے جایا جاتا تھا۔ آپ کی مراد حجاج ہی سے تھی۔
تشریح : حجاج ظالم دل میں عبد اللہ بن عمر سے دشمنی رکھتا تھا۔ کیونکہ انہوں نے اس کو کعبہ پر منجنیق لگانے اور عبد اللہ بن زبیر کے قتل کرنے پر ملامت کی تھی۔ دوسرے عبد الملک بن مروان نے جو خلیفہ وقت تھا، حجاج کو یہ کہلا بھیجا تھا کہ عبد اللہ بن عمر کی اطاعت کرتا رہے، یہ امر اس مردود پر شاق گزرا اور اس نے چپکے سے ایک شخص کو اشارہ کر دیا اس نے زہر آلود برچھا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاؤں میں گھسیڑ دیا۔ خود ہی تو یہ شرارت کی اور خود ہی کیا مسکین بن کر عبد اللہ کی عیادت کو آیا۔ واہ رے مکار خدا کو کیا جواب دے گا۔ آخر عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے جو اللہ کے بڑے مقبول بندے اور بڑے عالم اور عابد اور زاہد اور صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے، ان کا مگر پہچان لیا اور فرمایا کہ تم نے ہی تو مارا ہے اور تو ہی کہتا ہے ہم مجرم کو پالیں تو اس کو سخت سزادیں۔ جفا کردی و خود کشتی بہ تیغ ظلم مارا بہانہ میں برائے پرسش بیماری آئی ( مولانا وحید الزماں مرحوم ) اس سے اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ دنیا دار مسلمانوںنے کس کس طرح سے علماءاسلام کو تکالیف دی ہیں پھر بھی وہ مردان حق پرست امر حق کی دعوت دیتے رہے۔ آج بھی علماءکو ان بزرگوں کی اقتداءلازمی ہے۔ حجاج ظالم دل میں عبد اللہ بن عمر سے دشمنی رکھتا تھا۔ کیونکہ انہوں نے اس کو کعبہ پر منجنیق لگانے اور عبد اللہ بن زبیر کے قتل کرنے پر ملامت کی تھی۔ دوسرے عبد الملک بن مروان نے جو خلیفہ وقت تھا، حجاج کو یہ کہلا بھیجا تھا کہ عبد اللہ بن عمر کی اطاعت کرتا رہے، یہ امر اس مردود پر شاق گزرا اور اس نے چپکے سے ایک شخص کو اشارہ کر دیا اس نے زہر آلود برچھا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاؤں میں گھسیڑ دیا۔ خود ہی تو یہ شرارت کی اور خود ہی کیا مسکین بن کر عبد اللہ کی عیادت کو آیا۔ واہ رے مکار خدا کو کیا جواب دے گا۔ آخر عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے جو اللہ کے بڑے مقبول بندے اور بڑے عالم اور عابد اور زاہد اور صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے، ان کا مگر پہچان لیا اور فرمایا کہ تم نے ہی تو مارا ہے اور تو ہی کہتا ہے ہم مجرم کو پالیں تو اس کو سخت سزادیں۔ جفا کردی و خود کشتی بہ تیغ ظلم مارا بہانہ میں برائے پرسش بیماری آئی ( مولانا وحید الزماں مرحوم ) اس سے اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ دنیا دار مسلمانوںنے کس کس طرح سے علماءاسلام کو تکالیف دی ہیں پھر بھی وہ مردان حق پرست امر حق کی دعوت دیتے رہے۔ آج بھی علماءکو ان بزرگوں کی اقتداءلازمی ہے۔