‌صحيح البخاري - حدیث 96

كِتَابُ العِلْمِ بَابُ مَنْ أَعَادَ الحَدِيثَ ثَلاَثًا لِيُفْهَمَ عَنْهُ صحيح حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ [ص:31]: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: تَخَلَّفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ سَافَرْنَاهُ، فَأَدْرَكَنَا وَقَدْ أَرْهَقْنَا الصَّلاَةَ، صَلاَةَ العَصْرِ، وَنَحْنُ نَتَوَضَّأُ، فَجَعَلْنَا نَمْسَحُ عَلَى أَرْجُلِنَا فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ «وَيْلٌ لِلْأَعْقَابِ مِنَ النَّارِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاَثًا»

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 96

کتاب: علم کے بیان میں باب: معلم کا تین بار مسئلہ کو دہرانا ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے ابوعوانہ نے ابی بشر کے واسطے سے بیان کیا، وہ یوسف بن ماھک سے بیان کرتے ہیں، وہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے، وہ کہتے ہیں کہ ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے پیچھے رہ گئے۔ پھر آپ ہمارے قریب پہنچے۔ تو عصر کی نماز کا وقت ہو چکا تھا یا تنگ ہو گیا تھا اور ہم وضو کر رہے تھے۔ ہم اپنے پیروں پر پانی کا ہاتھ پھیرنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے فرمایا کہ آگ کے عذاب سے ان ایڑیوں کی ( جو خشک رہ جائیں ) خرابی ہے۔ یہ دو مرتبہ فرمایا یا تین مرتبہ۔
تشریح : ان احادیث سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ نکالا کہ اگر کوئی محدث سمجھانے کے لیے ضرورت کے وقت حدیث کو مکرر بیان کرے یا طالب علم ہی استاد سے دوبارہ یاسہ بارہ پڑھنے کو ک ہے تو یہ مکروہ نہیں ہے۔ تین بار سلام اس حالت میں ہے کہ جب کوئی شخص کسی کے دروازے پر جائے اور اندرآنے کی اجازت طلب کرے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو کتاب الاستیذان میں بھی لائے ہیں، اس سے بھی یہی نکلتا ہے۔ ورنہ ہمیشہ آپ کی یہ عادت نہ تھی کہ تین بار سلام کرتے، یہ اسی صورت میں تھا کہ گھر والے پہلا سلام نہ سن پاتے توآپ دوبارہ سلام کرتے اگر پھر بھی وہ جواب نہ دیتے توتیسری دفعہ سلام کرتے، پھر بھی جواب نہ ملتا تو آپ واپس ہوجاتے۔ ان احادیث سے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ نکالا کہ اگر کوئی محدث سمجھانے کے لیے ضرورت کے وقت حدیث کو مکرر بیان کرے یا طالب علم ہی استاد سے دوبارہ یاسہ بارہ پڑھنے کو ک ہے تو یہ مکروہ نہیں ہے۔ تین بار سلام اس حالت میں ہے کہ جب کوئی شخص کسی کے دروازے پر جائے اور اندرآنے کی اجازت طلب کرے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کو کتاب الاستیذان میں بھی لائے ہیں، اس سے بھی یہی نکلتا ہے۔ ورنہ ہمیشہ آپ کی یہ عادت نہ تھی کہ تین بار سلام کرتے، یہ اسی صورت میں تھا کہ گھر والے پہلا سلام نہ سن پاتے توآپ دوبارہ سلام کرتے اگر پھر بھی وہ جواب نہ دیتے توتیسری دفعہ سلام کرتے، پھر بھی جواب نہ ملتا تو آپ واپس ہوجاتے۔