‌صحيح البخاري - حدیث 957

کِتَابُ العِيدَيْنِ بَابُ المَشْيِ وَالرُّكُوبِ إِلَى العِيدِ، وَالصَّلاَةِ قَبْلَ الخُطْبَةِ بِغَيْرِ أَذَانٍ وَلاَ إِقَامَةٍ صحيح حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ قَالَ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ نَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي فِي الْأَضْحَى وَالْفِطْرِ ثُمَّ يَخْطُبُ بَعْدَ الصَّلَاةِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 957

کتاب: عیدین کے مسائل کے بیان میں باب: نماز عید خطبہ سے پہلے اذان اور اقامت ہم سے ابراہیم بن منذر حزامی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے انس بن عیاض نے بیان کیا، انہوں نے عبید اللہ بن عمر سے بیان کیا، ان سے نافع نے، ان سے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الضحی یا عید الفطر کی نماز پہلے پڑھتے اور خطبہ نماز کے بعد دیتے تھے۔
تشریح : باب کی حدیثوں میں سے نہیں نکلتا کہ عید کی نماز کے لیے سواری پر جانا یا پیدل جانا مگر امام بخاری رحمہ اللہ نے سواری پر جانے کی ممانعت مذکور نہ ہونے سے یہ نکالا کہ سواری پر بھی جانا منع نہیں ہے گو پیدل جانا افضل ہے۔ شافعی نے کہا ہمیں زہری سے پہنچا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عید میں یا جنازے میں کبھی سوار ہو کر نہیں گئے اور ترمذی نے حضرت علی سے نکالا کہ عید کی نماز کے لیے پیدل جانا سنت ہے۔ ( وحیدی ) اس باب کی روایات میں نہ پیدل چلنے کا ذکر ہے نہ سوار ی پر چلنے کی ممانعت ہے جس سے امام بخاری رحمہ اللہ نے اشارہ فرمایا کہ ہر دو طرح سے عید گاہ جانا درست ہے، اگر چہ پیدل چلنا سنت ہے اور اسی میں زیادہ ثواب ہے کیونکہ زمین پر جس قدر بھی نقش قدم ہوں گے ہر قدم کے بدلے دس دس نیکیوں کا ثواب ملے گا لیکن اگر کوئی معذور ہو یا عیدگاہ دور ہو تو سواری کا استعمال بھی جائز ہے۔ بعض شارحین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بلال رضی اللہ عنہ پر تکیہ لگانے سے سواری کا جواز ثابت کیا ہے۔ واللہ اعلم باب کی حدیثوں میں سے نہیں نکلتا کہ عید کی نماز کے لیے سواری پر جانا یا پیدل جانا مگر امام بخاری رحمہ اللہ نے سواری پر جانے کی ممانعت مذکور نہ ہونے سے یہ نکالا کہ سواری پر بھی جانا منع نہیں ہے گو پیدل جانا افضل ہے۔ شافعی نے کہا ہمیں زہری سے پہنچا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عید میں یا جنازے میں کبھی سوار ہو کر نہیں گئے اور ترمذی نے حضرت علی سے نکالا کہ عید کی نماز کے لیے پیدل جانا سنت ہے۔ ( وحیدی ) اس باب کی روایات میں نہ پیدل چلنے کا ذکر ہے نہ سوار ی پر چلنے کی ممانعت ہے جس سے امام بخاری رحمہ اللہ نے اشارہ فرمایا کہ ہر دو طرح سے عید گاہ جانا درست ہے، اگر چہ پیدل چلنا سنت ہے اور اسی میں زیادہ ثواب ہے کیونکہ زمین پر جس قدر بھی نقش قدم ہوں گے ہر قدم کے بدلے دس دس نیکیوں کا ثواب ملے گا لیکن اگر کوئی معذور ہو یا عیدگاہ دور ہو تو سواری کا استعمال بھی جائز ہے۔ بعض شارحین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بلال رضی اللہ عنہ پر تکیہ لگانے سے سواری کا جواز ثابت کیا ہے۔ واللہ اعلم