کِتَابُ العِيدَيْنِ بَابُ سُنَّةِ العِيدَيْنِ لِأَهْلِ الإِسْلاَمِ صحيح حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ دَخَلَ أَبُو بَكْرٍ وَعِنْدِي جَارِيَتَانِ مِنْ جَوَارِي الْأَنْصَارِ تُغَنِّيَانِ بِمَا تَقَاوَلَتْ الْأَنْصَارُ يَوْمَ بُعَاثَ قَالَتْ وَلَيْسَتَا بِمُغَنِّيَتَيْنِ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ أَمَزَامِيرُ الشَّيْطَانِ فِي بَيْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذَلِكَ فِي يَوْمِ عِيدٍ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أَبَا بَكْرٍ إِنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عِيدًا وَهَذَا عِيدُنَا
کتاب: عیدین کے مسائل کے بیان میں
باب: عید کے دن پہلی سنت کیا ہے؟
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابو اسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے باپ ( عروہ بن زبیر ) نے، ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے، آپ نے بتلایا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو میرے پاس انصار کی دو لڑکیاں وہ اشعار گا رہی تھیں جو انصار نے بعاث کی جنگ کے موقع پر کہے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ گانے والیاں نہیں تھیں، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں شیطانی باجے اور یہ عید کا دن تھا آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر سے فرمایا اے ابو بکر ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور آج یہ ہماری عید ہے۔
تشریح :
قال الخطابی یوم بعاث یو م مشھودمن ایام العرب کانت فیہ مقتلۃ عظیمۃ للاوس والخروج ولقیت الحربۃ قائمۃ مائۃ وعشرین سنۃ الی الاسلام علی ما ذکر ابن اسحاق وغیرہ یعنی خطابی نے کہا کہ یوم بعاث تاریخ عرب میں ایک عظیم لڑائی کے نام سے مشہور ہے جس میں اوس اور خزرج کے دو بڑے قبائل کی جنگ ہوئی تھی جس کا سلسلہ نسلا بعد نسل ایک سو بیس سال تک جاری رہا یہاں تک کہ اسلام کا دور آیا اور یہ قبائل مسلمان ہوئے۔
دوسری روایت میں ہے کہ یہ گانا دف کے ساتھ ہو رہا تھا۔ بعاث ایک قلعہ ہے جس پر اوس اور خزرج کی جنگ ایک سو بیس برس سے جاری تھی۔ اسلام کی برکت سے یہ جنگ موقوف ہوگئی اور دونوں قبیلوں میں الفت پیدا ہو گئی۔ اس جنگ کی مظلوم روداد تھی جو یہ بچیاں گا رہی تھیں جن میں ایک حضرت عبد اللہ بن سلام کی لڑکی اور دوسری حسان بن ثابت کی لڑکی تھی ( فتح الباری )
اس حدیث سے معلوم یہ ہوا کہ عید کے دن ایسے گانے میں مضائقہ نہیں کیونکہ یہ دن شرعاً خوشی کا دن ہے پھر اگر چھوٹی لڑکیاں کسی کی تعریف یا کسی کی بہادری کے اشعار خوش آواز سے پڑھیں تو جائز ہے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی رخصت دی۔ لیکن اس میں بھی شرط یہ ہے کہ گانے والی جواں عورت نہ ہو اور راگ کا مضمون شرع شریف کے خلاف نہ ہو اور صوفیوں نے جو اس بات میںخرافات اور بدعات نکالی ہیں ان کی حرمت میں بھی کسی کا اختلاف نہیں ہے اورنفوس شہوانیہ بہت صوفیوں پر غالب آگئے یہاں تک کہ بہت صوفی دیوانوں اور بچوں کی طرح ناچتے ہیں اور ان کو تقرب الی اللہ کا وسیلہ جانتے ہیں اور نیک کام سمجھتے ہیں اور یہ بلا شک وشبہ زنادقہ کی علامت ہے اور بیہودہ لوگوں کا قول۔ واللہ المستعان ( تسہیل القاری، پ:4ص39/326 )
بنو ارفدہ حبشیوں کا لقب ہے آپ نے برچھوں اور ڈھالوں سے ان کے جنگی کرتبوں کو ملاحظہ فرمایا اور ان پر خوشی کا اظہار کیا۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد باب یہی ہے کہ عید کے دن اگر ایسے جنگی کرتب دکھلائے جائیں تو جائز ہے۔ اس حدیث سے اور بھی بہت سی باتوں کا ثبوت ملتا ہے۔ مثلاً یہ کہ خاوند کی موجودگی میں باپ اپنی بیٹی کو ادب کی بات بتلاسکتا ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنے بڑوں کے سامنے بات کرنے میں شرم کرنی مناسب ہے، یہ بھی ظاہر ہوا کہ شاگرد اگر استاد کے پاس کوئی امر مکروہ دیکھے تو وہ از راہ ادب نیک نیتی سے اصلاح کا مشورہ دے سکتا ہے، اور بھی کئی امور پر اس حدیث سے روشنی پڑتی ہے۔ جو معمولی غور وفکر سے واضح ہو سکتے ہیں۔
قال الخطابی یوم بعاث یو م مشھودمن ایام العرب کانت فیہ مقتلۃ عظیمۃ للاوس والخروج ولقیت الحربۃ قائمۃ مائۃ وعشرین سنۃ الی الاسلام علی ما ذکر ابن اسحاق وغیرہ یعنی خطابی نے کہا کہ یوم بعاث تاریخ عرب میں ایک عظیم لڑائی کے نام سے مشہور ہے جس میں اوس اور خزرج کے دو بڑے قبائل کی جنگ ہوئی تھی جس کا سلسلہ نسلا بعد نسل ایک سو بیس سال تک جاری رہا یہاں تک کہ اسلام کا دور آیا اور یہ قبائل مسلمان ہوئے۔
دوسری روایت میں ہے کہ یہ گانا دف کے ساتھ ہو رہا تھا۔ بعاث ایک قلعہ ہے جس پر اوس اور خزرج کی جنگ ایک سو بیس برس سے جاری تھی۔ اسلام کی برکت سے یہ جنگ موقوف ہوگئی اور دونوں قبیلوں میں الفت پیدا ہو گئی۔ اس جنگ کی مظلوم روداد تھی جو یہ بچیاں گا رہی تھیں جن میں ایک حضرت عبد اللہ بن سلام کی لڑکی اور دوسری حسان بن ثابت کی لڑکی تھی ( فتح الباری )
اس حدیث سے معلوم یہ ہوا کہ عید کے دن ایسے گانے میں مضائقہ نہیں کیونکہ یہ دن شرعاً خوشی کا دن ہے پھر اگر چھوٹی لڑکیاں کسی کی تعریف یا کسی کی بہادری کے اشعار خوش آواز سے پڑھیں تو جائز ہے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی رخصت دی۔ لیکن اس میں بھی شرط یہ ہے کہ گانے والی جواں عورت نہ ہو اور راگ کا مضمون شرع شریف کے خلاف نہ ہو اور صوفیوں نے جو اس بات میںخرافات اور بدعات نکالی ہیں ان کی حرمت میں بھی کسی کا اختلاف نہیں ہے اورنفوس شہوانیہ بہت صوفیوں پر غالب آگئے یہاں تک کہ بہت صوفی دیوانوں اور بچوں کی طرح ناچتے ہیں اور ان کو تقرب الی اللہ کا وسیلہ جانتے ہیں اور نیک کام سمجھتے ہیں اور یہ بلا شک وشبہ زنادقہ کی علامت ہے اور بیہودہ لوگوں کا قول۔ واللہ المستعان ( تسہیل القاری، پ:4ص39/326 )
بنو ارفدہ حبشیوں کا لقب ہے آپ نے برچھوں اور ڈھالوں سے ان کے جنگی کرتبوں کو ملاحظہ فرمایا اور ان پر خوشی کا اظہار کیا۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد باب یہی ہے کہ عید کے دن اگر ایسے جنگی کرتب دکھلائے جائیں تو جائز ہے۔ اس حدیث سے اور بھی بہت سی باتوں کا ثبوت ملتا ہے۔ مثلاً یہ کہ خاوند کی موجودگی میں باپ اپنی بیٹی کو ادب کی بات بتلاسکتا ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنے بڑوں کے سامنے بات کرنے میں شرم کرنی مناسب ہے، یہ بھی ظاہر ہوا کہ شاگرد اگر استاد کے پاس کوئی امر مکروہ دیکھے تو وہ از راہ ادب نیک نیتی سے اصلاح کا مشورہ دے سکتا ہے، اور بھی کئی امور پر اس حدیث سے روشنی پڑتی ہے۔ جو معمولی غور وفکر سے واضح ہو سکتے ہیں۔