‌صحيح البخاري - حدیث 946

کِتَابُ صَلاَةِ الخَوْفِ بَابُ صَلاَةِ الطَّالِبِ وَالمَطْلُوبِ رَاكِبًا وَإِيمَاءً صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ قَالَ حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَنَا لَمَّا رَجَعَ مِنْ الْأَحْزَابِ لَا يُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الْعَصْرَ إِلَّا فِي بَنِي قُرَيْظَةَ فَأَدْرَكَ بَعْضَهُمْ الْعَصْرُ فِي الطَّرِيقِ فَقَالَ بَعْضُهُمْ لَا نُصَلِّي حَتَّى نَأْتِيَهَا وَقَالَ بَعْضُهُمْ بَلْ نُصَلِّي لَمْ يُرَدْ مِنَّا ذَلِكَ فَذُكِرَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُعَنِّفْ وَاحِدًا مِنْهُمْ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 946

کتاب: نماز خوف کا بیان باب: جو دشمن کے پیچھے یا دشمن اس کے ہم سے عبد اللہ بن محمد بن اسماء نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جویریہ بن اسماء نے نافع سے، ان سے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ خندق سے فارغ ہوئے ( ابوسفیان لوٹا ) تو ہم سے آپ نے فرمایا کوئی شخص بنو قریظہ کے محلہ میں پہنچنے سے پہلے نماز عصر نہ پڑھے لیکن جب عصر کا وقت آیا تو بعض صحابہ نے راستہ ہی میں نماز پڑھ لی اور بعض صحابہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم بنوقریظہ کے محلہ میں پہنچنے پر نماز عصر پڑھیں گے اور کچھ حضرات کا خیال یہ ہوا کہ ہمیں نماز پڑھ لینی چاہیے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ نہیں تھا کہ نماز قضا کر لیں۔ پھر جب آپ سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ نے کسی پر بھی ملامت نہیں فرمائی۔
تشریح : طالب یعنی دشمن کی تلاش میں نکلنے والے، مطلوب یعنی جس کی تلاش میں دشمن لگا ہو۔ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب غزوہ احزاب ختم ہوگیا اور کفار ناکام چلے گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فورا ہی مجاہدین کو حکم دیا کہ اسی حالت میں بنو قریظہ کے محلہ میں چلیں جہاں مدینہ کے یہودی رہتے تھے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو ان یہودیوں نے ایک معاہدہ کے تحت ایک دوسرے کے خلاف کسی جنگی کاروائی میں حصہ نہ لینے کا عہد کیا تھا۔ مگر خفیہ طور پر یہودی پہلے بھی مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہے اور اس موقع پر تو انہوں نے کھل کر کفار کا ساتھ دیا۔ یہود نے یہ سمجھ کر بھی اس میں شرکت کی تھی کہ یہ آخری اور فیصلہ کن لڑائی ہوگی اور مسلمانوں کی اس میں شکست یقینی ہے۔ معاہدہ کی رو سے یہودیوں کی اس جنگ میں شرکت ایک سنگین جرم تھا، اس لیے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ بغیر کسی مہلت کے ان پر حملہ کیا جائے اور اسی لیے آپ نے فرمایا تھا کہ نماز عصر بنو قریظہ میں جا کر پڑھی جائے کیونکہ راستے میں اگر کہیں نماز کے لیے ٹھہر تے تو دیر ہو جاتی چنانچہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہ نے بھی اس سے یہی سمجھا کہ آپ کا مقصد صرف جلد تر بنو قریظہ پہنچنا تھا۔اس سے ثابت ہوا کہ بحالت مجبوری طالب اور مطلوب ہر دو سواری پر نماز اشارے سے پڑھ سکتے ہیں، امام بخاری رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے اور امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک جس کے پیچھے دشمن لگا ہو وہ تو اپنے بچانے کے لیے سواری پر اشارے ہی سے نماز پڑھ سکتا ہے اور جوخود دشمن کے پیچھے لگا ہو تو اس کو درست نہیں اور امام مالک رحمہ اللہ نے کہاکہ اس کو اس وقت درست ہے جب دشمن کے نکل جانے کا ڈر ہو۔ ولید نے امام اوزاعی رحمہ اللہ کے مذہب پر حدیث لا یصلین احد العصر الخ سے دلیل لی کہ صحابہ بنو قریظہ کے طالب تھے یعنی ان کے پیچھے اور بنی قریظہ مطلوب تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز قضا ہوجانے کی ان کے لیے پروانہ کی۔ جب طالب کو نماز قضا کر دینا درست ہوا تو اشارہ سے سواری پر پڑھ لینا بطریق اولی درست ہوگا حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا استدلال اسی لیے اس حدیث سے درست ہے۔ بنو قریظہ پہنچنے والے صحابہ میں سے ہر ایک نے اپنے اجتہاد اور رائے پر عمل کیا بعضوں نے یہ خیال کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کا یہ مطلب ہے کہ جلد جاؤ بیچ میں ٹھہرو نہیں تو ہم نماز کیوں قضا کریں، انہوں نے سواری پر پڑھ لی بعضوں نے خیال کیا کہ حکم بجالانا ضروری ہے نماز بھی خدا اور اس کے رسول کی رضا مندی کے لیے پڑھتے ہیں تو اب آپ کے حکم کی تعمیل میں اگر نماز میں دیر ہو جائے گی تو ہم کچھ گنہگار نہ ہوںگے ( الغرض ) فریقین کی نیت بخیر تھی اس لیے کوئی ملامت کے لائق نہ ٹھہرا۔ معلوم ہوا کہ اگر مجتہد غور کرے اور پھر اس کے اجتہاد میں غلطی ہو جائے تو اس سے مؤاخذہ نہ ہوگا۔ نووی نے کہا اس پر اتفاق ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر مجتہد صواب پر ہے۔ طالب یعنی دشمن کی تلاش میں نکلنے والے، مطلوب یعنی جس کی تلاش میں دشمن لگا ہو۔ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب غزوہ احزاب ختم ہوگیا اور کفار ناکام چلے گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فورا ہی مجاہدین کو حکم دیا کہ اسی حالت میں بنو قریظہ کے محلہ میں چلیں جہاں مدینہ کے یہودی رہتے تھے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو ان یہودیوں نے ایک معاہدہ کے تحت ایک دوسرے کے خلاف کسی جنگی کاروائی میں حصہ نہ لینے کا عہد کیا تھا۔ مگر خفیہ طور پر یہودی پہلے بھی مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہے اور اس موقع پر تو انہوں نے کھل کر کفار کا ساتھ دیا۔ یہود نے یہ سمجھ کر بھی اس میں شرکت کی تھی کہ یہ آخری اور فیصلہ کن لڑائی ہوگی اور مسلمانوں کی اس میں شکست یقینی ہے۔ معاہدہ کی رو سے یہودیوں کی اس جنگ میں شرکت ایک سنگین جرم تھا، اس لیے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ بغیر کسی مہلت کے ان پر حملہ کیا جائے اور اسی لیے آپ نے فرمایا تھا کہ نماز عصر بنو قریظہ میں جا کر پڑھی جائے کیونکہ راستے میں اگر کہیں نماز کے لیے ٹھہر تے تو دیر ہو جاتی چنانچہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہ نے بھی اس سے یہی سمجھا کہ آپ کا مقصد صرف جلد تر بنو قریظہ پہنچنا تھا۔اس سے ثابت ہوا کہ بحالت مجبوری طالب اور مطلوب ہر دو سواری پر نماز اشارے سے پڑھ سکتے ہیں، امام بخاری رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے اور امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک جس کے پیچھے دشمن لگا ہو وہ تو اپنے بچانے کے لیے سواری پر اشارے ہی سے نماز پڑھ سکتا ہے اور جوخود دشمن کے پیچھے لگا ہو تو اس کو درست نہیں اور امام مالک رحمہ اللہ نے کہاکہ اس کو اس وقت درست ہے جب دشمن کے نکل جانے کا ڈر ہو۔ ولید نے امام اوزاعی رحمہ اللہ کے مذہب پر حدیث لا یصلین احد العصر الخ سے دلیل لی کہ صحابہ بنو قریظہ کے طالب تھے یعنی ان کے پیچھے اور بنی قریظہ مطلوب تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز قضا ہوجانے کی ان کے لیے پروانہ کی۔ جب طالب کو نماز قضا کر دینا درست ہوا تو اشارہ سے سواری پر پڑھ لینا بطریق اولی درست ہوگا حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا استدلال اسی لیے اس حدیث سے درست ہے۔ بنو قریظہ پہنچنے والے صحابہ میں سے ہر ایک نے اپنے اجتہاد اور رائے پر عمل کیا بعضوں نے یہ خیال کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کا یہ مطلب ہے کہ جلد جاؤ بیچ میں ٹھہرو نہیں تو ہم نماز کیوں قضا کریں، انہوں نے سواری پر پڑھ لی بعضوں نے خیال کیا کہ حکم بجالانا ضروری ہے نماز بھی خدا اور اس کے رسول کی رضا مندی کے لیے پڑھتے ہیں تو اب آپ کے حکم کی تعمیل میں اگر نماز میں دیر ہو جائے گی تو ہم کچھ گنہگار نہ ہوںگے ( الغرض ) فریقین کی نیت بخیر تھی اس لیے کوئی ملامت کے لائق نہ ٹھہرا۔ معلوم ہوا کہ اگر مجتہد غور کرے اور پھر اس کے اجتہاد میں غلطی ہو جائے تو اس سے مؤاخذہ نہ ہوگا۔ نووی نے کہا اس پر اتفاق ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر مجتہد صواب پر ہے۔