کِتَابُ صَلاَةِ الخَوْفِ بَابُ الصَّلاَةِ عِنْدَ مُنَاهَضَةِ الحُصُونِ وَلِقَاءِ العَدُوِّ صحيح حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ جَعْفَرٍ الْبُخَارِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُبَارَكٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ جَاءَ عُمَرُ يَوْمَ الْخَنْدَقِ فَجَعَلَ يَسُبُّ كُفَّارَ قُرَيْشٍ وَيَقُولُ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا صَلَّيْتُ الْعَصْرَ حَتَّى كَادَتْ الشَّمْسُ أَنْ تَغِيبَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا وَاللَّهِ مَا صَلَّيْتُهَا بَعْدُ قَالَ فَنَزَلَ إِلَى بُطْحَانَ فَتَوَضَّأَ وَصَلَّى الْعَصْرَ بَعْدَ مَا غَابَتْ الشَّمْسُ ثُمَّ صَلَّى الْمَغْرِبَ بَعْدَهَا
کتاب: نماز خوف کا بیان
باب: جب فتح کے امکانات روشن ہوں
ہم سے یحیی ابن جعفر نے بیان کیا کہ ہم سے وکیع نے علی بن مبارک سے بیان کیا، ان سے یحیی بن ابی کثیر نے، ان سے ابوسلمہ نے، ان سے جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہ نے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ غزوہ خندق کے دن کفار کو برا بھلا کہتے ہوئے آئے اور عرض کرنے لگے کہ یا رسول اللہ! سورج ڈوبنے ہی کو ہے اور میں نے تو اب تک عصر کی نماز نہیں پڑھی، اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بخد ا میں نے بھی ابھی تک نہیں پڑھی انہوں نے بیان کیا کہ پھر آپ بطحان کی طرف گئے ( جو مدینہ میں ایک میدان تھا ) اور وضو کر کے آپ نے وہاں سورج غروب ہونے کے بعد عصر کی نماز پڑھی، پھر اس کے بعد نماز مغرب پڑھی۔
تشریح :
باب کا ترجمہ اس حدیث سے نکلا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو لڑائی میں مصروف رہنے سے بالکل نماز کی فرصت نہ ملی تھی تو آپ نے نماز میں دیر کی۔ قسطلانی نے کہا ممکن ہے کہ اس وقت تک خوف کی نماز کا حکم نہیں اترا ہوگا۔ یا نماز کا آپ کو خیال نہ رہا ہو گا یا خیال ہو گا مگر طہارت کرنے کا موقع نہ ملا ہو گا۔
قیل اخرھا عمدالانہ کانت قبل نزول صلوۃ الخوف ذھب الیہ الجمھور کما قال ابن رشد وبہ جزم ابن القیم فی الھدیٰ والحافظ فی الفتح والقرطبی فی شرح مسلم وعیاض فی الشفاءوالزیلعی فی نصب الرایۃ وابن القصار وھذا ھو الراجح عندنا ( مرعاۃ المفاتیح، ج:2ص318 ) یعنی کہا گیا ( شدت جنگ کی وجہ سے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمدا نماز عصر کو مؤخر فرمایا، اس لیے کہ اس وقت تک صلوۃ خوف کا حکم نازل نہیں ہوا تھا۔ بقول ابن رشد جمہور کا یہی قول ہے اور علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں اس خیال پر جزم کیا ہے اور حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اور قرطبی نے شرح مسلم میں اور قاضی عیاض نے شفاءمیں اور زیلعی نے نصب الرایہ میں اور ابن قصار نے اسی خیال کو ترجیح دی ہے اور حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث مؤلف مرعاۃ المفاتیح فرماتے ہیں کہ ہمارے نزدیک بھی اسی خیال کو ترجیح حاصل ہے
باب کا ترجمہ اس حدیث سے نکلا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو لڑائی میں مصروف رہنے سے بالکل نماز کی فرصت نہ ملی تھی تو آپ نے نماز میں دیر کی۔ قسطلانی نے کہا ممکن ہے کہ اس وقت تک خوف کی نماز کا حکم نہیں اترا ہوگا۔ یا نماز کا آپ کو خیال نہ رہا ہو گا یا خیال ہو گا مگر طہارت کرنے کا موقع نہ ملا ہو گا۔
قیل اخرھا عمدالانہ کانت قبل نزول صلوۃ الخوف ذھب الیہ الجمھور کما قال ابن رشد وبہ جزم ابن القیم فی الھدیٰ والحافظ فی الفتح والقرطبی فی شرح مسلم وعیاض فی الشفاءوالزیلعی فی نصب الرایۃ وابن القصار وھذا ھو الراجح عندنا ( مرعاۃ المفاتیح، ج:2ص318 ) یعنی کہا گیا ( شدت جنگ کی وجہ سے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمدا نماز عصر کو مؤخر فرمایا، اس لیے کہ اس وقت تک صلوۃ خوف کا حکم نازل نہیں ہوا تھا۔ بقول ابن رشد جمہور کا یہی قول ہے اور علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں اس خیال پر جزم کیا ہے اور حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اور قرطبی نے شرح مسلم میں اور قاضی عیاض نے شفاءمیں اور زیلعی نے نصب الرایہ میں اور ابن قصار نے اسی خیال کو ترجیح دی ہے اور حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث مؤلف مرعاۃ المفاتیح فرماتے ہیں کہ ہمارے نزدیک بھی اسی خیال کو ترجیح حاصل ہے