‌صحيح البخاري - حدیث 943

کِتَابُ صَلاَةِ الخَوْفِ بَابُ صَلاَةِ الخَوْفِ رِجَالًا وَرُكْبَانًا رَاجِلٌ قَائِمٌ صحيح حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقُرَشِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ عَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ نَحْوًا مِنْ قَوْلِ مُجَاهِدٍ إِذَا اخْتَلَطُوا قِيَامًا وَزَادَ ابْنُ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَلْيُصَلُّوا قِيَامًا وَرُكْبَانًا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 943

کتاب: نماز خوف کا بیان باب: خوف کی نماز پیدل و سوار پڑھنا ہم سے سعید بن یحییٰ بن سعید قرشی نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے میرے باپ یحییٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ا بن جریج نے بیان کیا، ان سے موسی بن عقبہ نے، ان سے نافع نے، ان سے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے مجاہد کے قول کی طرح بیان کیا کہ جب جنگ میں لوگ ایک دوسرے سے گٹھ جائیں تو کھڑے کھڑے نماز پڑھ لیں اور ا بن عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی روایت میں اضافہ اور کیا ہے کہ اگر کافر بہت سارے ہوں کہ مسلمانوں کو دم نہ لینے دیں تو کھڑے کھڑے اور سوار رہ کر ( جس طور ممکن ہو ) اشاروں سے ہی سہی مگر نماز پڑھ لیں۔
تشریح : علامہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قیل مقصودہ ان الصلوۃ لا تسقط عند العجز عن النزول عن العرابۃ ولا توخر عن وقتھا بل تصلی علی ای وجہ حصلت القدرۃ علیہ بدلیل الآیۃ ( فتح الباری ) یعنی مقصود یہ ہے کہ نماز اس وقت بھی ساقط نہیں ہوتی جب کہ نمازی سواری سے اترنے سے عاجز ہو اور نہ وہ وقت سے مؤخر کی جا سکتی ہے بلکہ ہر حالت میں اپنی قدرت کے مطابق اسے پڑھنا ہی ہوگا جیسا کہ آیت بالا اس پر دال ہے۔ زمانہ حاضرہ میں ریلوں، موٹروں، ہوائی جہازوں میں بہت سے ایسے ہی مواقع آجاتے ہیں کہ ان سے اترنا نا ممکن ہو جاتا ہے بہر حال نماز جس طور بھی ممکن ہو وقت مقررہ پر پڑھ ہی لینی چاہیے۔ ایسی ہی دشواریوں کے پیش نظر شارع علیہ السلام نے دو نمازوں کو ایک وقت میں جمع کر کے ادا کرنا جائز قرار دیا ہے اور سفر میں قصر اور بوقت جہاد اور بھی مزید رعایت دی گئی مگر نماز کو معاف نہیں کیا گیا۔ علامہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قیل مقصودہ ان الصلوۃ لا تسقط عند العجز عن النزول عن العرابۃ ولا توخر عن وقتھا بل تصلی علی ای وجہ حصلت القدرۃ علیہ بدلیل الآیۃ ( فتح الباری ) یعنی مقصود یہ ہے کہ نماز اس وقت بھی ساقط نہیں ہوتی جب کہ نمازی سواری سے اترنے سے عاجز ہو اور نہ وہ وقت سے مؤخر کی جا سکتی ہے بلکہ ہر حالت میں اپنی قدرت کے مطابق اسے پڑھنا ہی ہوگا جیسا کہ آیت بالا اس پر دال ہے۔ زمانہ حاضرہ میں ریلوں، موٹروں، ہوائی جہازوں میں بہت سے ایسے ہی مواقع آجاتے ہیں کہ ان سے اترنا نا ممکن ہو جاتا ہے بہر حال نماز جس طور بھی ممکن ہو وقت مقررہ پر پڑھ ہی لینی چاہیے۔ ایسی ہی دشواریوں کے پیش نظر شارع علیہ السلام نے دو نمازوں کو ایک وقت میں جمع کر کے ادا کرنا جائز قرار دیا ہے اور سفر میں قصر اور بوقت جہاد اور بھی مزید رعایت دی گئی مگر نماز کو معاف نہیں کیا گیا۔