كِتَابُ الجُمُعَةِ بَابُ القَائِلَةِ بَعْدَ الجُمُعَةِ صحيح حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ كُنَّا نُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجُمُعَةَ ثُمَّ تَكُونُ الْقَائِلَةُ
کتاب: جمعہ کے بیان میں
باب: جمعہ کی نماز کے بعد سونا
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابو غسان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابو حازم نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے بیان کیا، انہوں نے بتلایا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمعہ پڑھتے، پھر دوپہر کی نیند لیا کرتے تھے۔
تشریح :
حضرت امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وظاھر ذالک انھم کانوا یصلون الجمعۃ باکرالنھار قال الحافظ تکن طریق الجمع اولیٰ من دعوی التعارض وقد تقرر ان التبکیر یطلق علی جعل الشئی فی اول وقتہ وتقدیمہ علی غیرہ وھو المراد ھھنا انھم کانوا یبدون الصلوۃ قبل القیلولۃ بخلاف ما جرت بہ عادتھم فی صلوۃ الظھر فی الحر کانوا یقیلون ثم یصلون لمشروعیۃ الابراد والمراد بالقائلۃ المذکورۃ فی الحدیث نوم نصف النھار ( نیل الاوطار ) یعنی ظاہر یہ کہ وہ صحابی کرام جمعہ کی نماز چڑھتے ہوئے دن میں ادا کرلیتے تھے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تعارض پیدا کرنے سے بہتر ہے کہ ہردو قسم کی احادیث میں تطبیق دی جائے اور یہ مقرر ہو چکا ہے کہ تبکیر کا لفظ کسی کام کو اس کے اول وقت میں کرنے یا غیر پر اسے مقدم کرنے پو بولا جاتا ہے اور یہاں یہی مراد ہے کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جمعہ کی نماز روزانہ کی عادت قیلولہ کے اول وقت میں پڑھ لیا کرتے تھے حالانکہ گرمیوں میں ان کی عادت تھی کہ وہ ٹھنڈا کرنے کے خیال سے پہلے قیلولہ کرتے بعد میں ظہر کی نماز پڑھتے مگر جمعہ کی نماز بعض دفعہ خلاف عادت قیلولہ سے پہلے ہی پڑھ لیا کرتے تھے، قیلولہ دوپہر کے سونے پر بولا جاتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جمعہ کو بعد زوال اول وقت پڑھنا ان روایات کا مطلب اور منشا ہے۔ اس طرح جمعہ اول وقت اورآخر وقت ہر دو میں پڑھا جا سکتا ہے بعض حضرات قبل زوال بھی جمعہ کے قائل ہیں۔ مگر ترجیح بعد زوال ہی کو ہے اور یہی امام بخاری رحمہ اللہ کا مسلک معلوم ہوتا ہے۔ ایک طویل تفصیل کے بعد حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وقد ظھر بما ذکرنا انہ لیس فی صلوۃ الجمعۃ قبل الزوال حدیث صحیح صریح فالقول الراجح ھو ما قال بہ الجمھور قال شیخنا فی شرح التر مذی والظاھر المعول علیہ ھو ما ذھب الیہ الجمھور من انہ لا تجوز الجمعۃ الا بعد زوال الشمس واما ماذھب الیہ بعضھم من تجوز قبل زوال فلیس فیہ حدیث صحیح صریح انتھیٰ ( مرعاۃ ج:2 ص:203 ) خلاصہ یہ ہے کہ جمعہ زوال سے پہلے درست نہیں اسی قول کو ترجیح حاصل ہے۔ زوال سے پہلے جمعہ کے صحیح ہونے میں کوئی حدیث صحیح صریح وارد نہیں ہوئی پس جمہور ہی کا مسلک صحیح ہے ( واللہ اعلم با لصواب )
حضرت امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وظاھر ذالک انھم کانوا یصلون الجمعۃ باکرالنھار قال الحافظ تکن طریق الجمع اولیٰ من دعوی التعارض وقد تقرر ان التبکیر یطلق علی جعل الشئی فی اول وقتہ وتقدیمہ علی غیرہ وھو المراد ھھنا انھم کانوا یبدون الصلوۃ قبل القیلولۃ بخلاف ما جرت بہ عادتھم فی صلوۃ الظھر فی الحر کانوا یقیلون ثم یصلون لمشروعیۃ الابراد والمراد بالقائلۃ المذکورۃ فی الحدیث نوم نصف النھار ( نیل الاوطار ) یعنی ظاہر یہ کہ وہ صحابی کرام جمعہ کی نماز چڑھتے ہوئے دن میں ادا کرلیتے تھے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تعارض پیدا کرنے سے بہتر ہے کہ ہردو قسم کی احادیث میں تطبیق دی جائے اور یہ مقرر ہو چکا ہے کہ تبکیر کا لفظ کسی کام کو اس کے اول وقت میں کرنے یا غیر پر اسے مقدم کرنے پو بولا جاتا ہے اور یہاں یہی مراد ہے کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جمعہ کی نماز روزانہ کی عادت قیلولہ کے اول وقت میں پڑھ لیا کرتے تھے حالانکہ گرمیوں میں ان کی عادت تھی کہ وہ ٹھنڈا کرنے کے خیال سے پہلے قیلولہ کرتے بعد میں ظہر کی نماز پڑھتے مگر جمعہ کی نماز بعض دفعہ خلاف عادت قیلولہ سے پہلے ہی پڑھ لیا کرتے تھے، قیلولہ دوپہر کے سونے پر بولا جاتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جمعہ کو بعد زوال اول وقت پڑھنا ان روایات کا مطلب اور منشا ہے۔ اس طرح جمعہ اول وقت اورآخر وقت ہر دو میں پڑھا جا سکتا ہے بعض حضرات قبل زوال بھی جمعہ کے قائل ہیں۔ مگر ترجیح بعد زوال ہی کو ہے اور یہی امام بخاری رحمہ اللہ کا مسلک معلوم ہوتا ہے۔ ایک طویل تفصیل کے بعد حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وقد ظھر بما ذکرنا انہ لیس فی صلوۃ الجمعۃ قبل الزوال حدیث صحیح صریح فالقول الراجح ھو ما قال بہ الجمھور قال شیخنا فی شرح التر مذی والظاھر المعول علیہ ھو ما ذھب الیہ الجمھور من انہ لا تجوز الجمعۃ الا بعد زوال الشمس واما ماذھب الیہ بعضھم من تجوز قبل زوال فلیس فیہ حدیث صحیح صریح انتھیٰ ( مرعاۃ ج:2 ص:203 ) خلاصہ یہ ہے کہ جمعہ زوال سے پہلے درست نہیں اسی قول کو ترجیح حاصل ہے۔ زوال سے پہلے جمعہ کے صحیح ہونے میں کوئی حدیث صحیح صریح وارد نہیں ہوئی پس جمہور ہی کا مسلک صحیح ہے ( واللہ اعلم با لصواب )