‌صحيح البخاري - حدیث 931

كِتَابُ الجُمُعَةِ بَابُ مَنْ جَاءَ وَالإِمَامُ يَخْطُبُ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ صحيح حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرٍو سَمِعَ جَابِرًا قَالَ دَخَلَ رَجُلٌ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ فَقَالَ أَصَلَّيْتَ قَالَ لَا قَالَ قُمْ فَصَلِّ رَكْعَتَيْنِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 931

کتاب: جمعہ کے بیان میں باب: دوران خطبہ دو رکعت پڑھنا ہم سے علی بن عبد اللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے عمرو سے بیان کیا، انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا کہ ایک شخص جمعہ کے دن مسجد میں آیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ پڑھ رہے تھے۔ آپ نے اس سے پوچھا کہ کیا تم نے ( تحیۃ المسجد کی ) نماز پڑھ لی ہے؟ آنے والے نے جواب دیا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اٹھو اور دو رکعت نماز ( تحیۃ المسجد ) پڑھ لو۔
تشریح : جمعہ کے دن حالت خطبہ میں کوئی شخص آئے تو اسے خطبہ ہی کی حالت میں دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھے بغیر نہیں بیٹھنا چاہیے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو حدیث جابر بن عبد اللہ سے جسے حضرت امام المحدثین نے یہاں نقل فرمایا ہےروز روشن کی طرح ثابت ہے۔ حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ نے باب فی الرکعتین اذا جاءالرجل والامام یخطب کے تحت اسی حدیث کو نقل فرمایا ہے، آخر میں فرماتے ہیں کہ ھذا حدیث حسن صحیح یہ حدیث بالکل حسن صحیح ہے، اس میں صاف بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ کی ہی حالت میں ایک آنے والے شخص ( سلیک نامی ) کو دو رکعت پڑھنے کا حکم فرمایا تھا۔ بعض ضعیف روایتوں میں مذکور ہے کہ جس حالت میں اس شخص نے دو رکعت ادا کیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا خطبہ بند کر دیا تھا۔ یہ روایت سند کے اعتبار سے لائق حجت نہیں ہے اور بخاری شریف کی مذکورہ حدیث حسن صحیح ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت خطبہ ہی میں اس کے دو رکعت پڑھنے کا ذکر ہے۔ لہذا اس کے مقابلے پر یہ روایت قابل حجت نہیں۔ دیوبندی حضرات فرماتے ہیں کہ آنے والے شخص کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز کا حکم بے شک فرمایا مگر ابھی آپ نے خطبہ شروع ہی نہیں فرمایا تھا۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ حدیث کے راوی حضرت جابر بن عبداللہ جو صاف لفظوں میں النبی صص یخطب الناس یوم الجمعۃ ( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو خطبہ سنا رہے تھے ) نقل فرمارہے ہیں نعوذباللہ ان کا یہ بیان غلط ہے اور ابھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ شروع ہی نہیں فرمایا تھا۔ یہ کس قدر جرات ہے کہ ایک صحابی رسول کو غلط بیانی کامرتکب گردانا جائے اور بعض ضعیف روایات کا سہارا لے کر محدثین کرام کی فقاہت حدیث اور حضرت جابر بن عبداللہ کے بیان کی نہایت بے باکی کے ساتھ تغلیط کی جائے۔ حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس سلسلہ کی دوسری حدیث عبد اللہ بن ابی مسرح سے یوں نقل فرمائی ہے: ان ابا سعید الخدری دخل یوم الجمعۃ ومروان یخطب فقام یصلی فجاءالحرس لیجلسوہ فابی حتی صلی فلما انصرف اتیناہ فقلنا رحمک اللہ ان کادوا لیقعو بک فقال ماکنت لا ترکھما بعد شئی رایتہ من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ثم ذکر ان رجلا جاءیوم الجمعۃ فی ھیئۃ بذۃ والنبی صلی اللہ علیہ وسلم یخطب یوم الجمعۃ فامرہ فصلی رکعتین والنبی صلی اللہ علیہ وسلم یخطب یعنی ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن مسجد میں اس حالت میں آئے کہ مروان خطبہ دے رہا تھا یہ نماز ( تحیۃ المسجد ) پڑھنے کھڑے ہوگئے۔یہ دیکھ کر سپاہی آئے اور ان کو زبردستی نماز سے باز رکھنا چاہا مگر یہ نہ مانے اور پڑھ کر ہی سلام پھیرا، عبد اللہ بن ابی مسرح کہتے ہیں کہ نماز کے بعد ہم نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے ملا قات کی اور کہا کہ وہ سپاہی آپ پر حملہ آور ہونا ہی چاہتے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ میں بھی ان دو رکعتوں کو چھوڑنے والاہی نہیں تھا۔ خواہ سپاہی لوگ کچھ بھی کرتے کیونکہ میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے آپ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ ایک آدمی پریشان شکل میں داخل مسجد ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اسی حالت میں دو رکعت پڑھ لینے کا حکم فرمایا۔ وہ نماز پڑھتا رہا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے۔ دو عادل گواہ!حضرت جابر بن عبد اللہ اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ہر دو عادل گواہوں کا بیان قارئین کے سامنے ہے۔ اس کے بعد مختلف تاویلات یا کمزور روایات کا سہارا لے کر ان ہر دو صحابیوں کی تغلیط کے درپے ہونا کسی بھی اہل علم کی شان کے خلاف ہے۔ حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ آگے فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عیینہ اور حضرت عبد الرحمن مقری ہر دو بزرگوں کا یہی معمول تھا کہ وہ اس حالت مذکورہ میں ان ہر دو رکعتوں کو ترک نہیں کیاکرتے تھے۔ حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس سلسلے کی دیگر روایات کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے جن میں حضرت جابر کی ایک اور روایت طبرانی میں یوں مذکور ہے :عن جابر قال دخل النعمان بن نوفل ورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی المنبر یخطب یوم الجمعۃ فقال لہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم رکعتین وتجوز فیھما فاذا اتی احدکم یوم الجمعۃ والامام یخطب فلیصل رکعتین ولیخففھما کذا فی قوت المعتذی وتحفۃ الاحوذی، ج:2ص:264 یعنی ایک بزرگ نعمان بن نوفل نامی مسجد میں داخل ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن منبر پر خطبہ دے رہے تھے۔ آپ نے ان کو حکم فرمایا کہ اٹھ کر دو رکعت پڑھ کر بیٹھیں اور ان کو ہلکا کر کے پڑھیں اور جب بھی کوئی تمہارا اس حالت میں مسجد میں آئے کہ امام خطبہ دے رہاہو تو وہ ہلکی دو رکعتیں پڑھ کر ہی بیٹھے اور ان کو ہلکا پڑھے۔ حضرت علامہ نووی شارح مسلم شریف فرماتے ہیں:ھذہ الاحادیث کلھا یعنی التی رواھا مسلم صریحۃ فی الدلالۃ لمذھب الشافعی واحمد واسحاق فقھاءالمحدثین انہ اذا دخل الجامع یوم الجمعۃ والامام یخطب یستحب لہ ان یصلی رکعتین تحیۃ المسجد ویکرہ الجلوس قبل ان یصلیھما وانہ یستحب ان یتجوز فیھما یسمع بعد ھما الخطبۃ وحکی ھذا المذھب عن الحسن البصری وغیرہ من المتقدمین ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی ان جملہ احادیث سے صراحت کے ساتھ ثابت ہے کہ امام جب خطبہ جمعہ دے رہا ہو اور کوئی آنے والا آئے تو اسے چاہیے کہ دو رکعتیں تحیۃ المسجد ادا کر کے ہی بیٹھے۔ بغیر ان دو رکعتوں کے اس کا بیٹھنا مکروہ ہے اور مستحب ہے کہ ہلکا پڑھے تاکہ پھرخطبہ سنے۔ یہی مسلک امام حسن بصری وغیرہ متقدمین کا ہے۔ حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ نے دوسرے حضرات کا مسلک بھی ذکر فرمایا ہے جو ان دو رکعتوں کے قائل نہیں ہیں پھر حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنا فیصلہ ان لفظوں میں دیا ہے والقول الاول اصح یعنی ان ہی حضرات کا مسلک صحیح ہے جو ان دو رکعتوں کے پڑھنے کے قائل ہیں۔ اس تفصیل کے بعد بھی اگر کوئی شخص ان دورکعتوں کو ناجائز تصور کرے تو یہ خود اس کی ذمہ داری ہے۔ آخر میں حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کا ارشاد گرامی بھی سن لیجیے آپ فرماتے ہیں: فاذا جاءوالامام یخطب فلیرکع رکعتین ولیتجوز فیھما رعایۃ لسنۃ الراتبۃ وادب الخطبۃ جمیعا بقدر الامکان ولا تغتر فی ھذہ المسالۃ بما یلھج بہ اھل بلدک فان الحدیث صحیح واجب اتباعہ ( حجۃ اللہ البالغۃ، جلد:دومص:101 ) یعنی جب کوئی نماز ی ایسے حال میں مسجد میں داخل ہو کہ امام خطبہ دے رہا ہو تو دو رکعت ہلکی خفیف پڑھ لے تاکہ سنت راتبہ اور ادب خطبہ ہر دو کی رعایت ہو سکے اور اس مسئلہ کے بارے میں تمہارے شہر کے لوگ جو شور کرتے ہیں اور ان رکعتوں کے پڑھنے سے روکتے ہیں؟ ان کے دھوکا میں نہ آنا کیونکہ اس مسئلہ کے حق میں حدیث صحیح وارد ہے جس کا اتباع واجب ہے وبا للّٰہ التوفیق۔ جمعہ کے دن حالت خطبہ میں کوئی شخص آئے تو اسے خطبہ ہی کی حالت میں دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھے بغیر نہیں بیٹھنا چاہیے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو حدیث جابر بن عبد اللہ سے جسے حضرت امام المحدثین نے یہاں نقل فرمایا ہےروز روشن کی طرح ثابت ہے۔ حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ نے باب فی الرکعتین اذا جاءالرجل والامام یخطب کے تحت اسی حدیث کو نقل فرمایا ہے، آخر میں فرماتے ہیں کہ ھذا حدیث حسن صحیح یہ حدیث بالکل حسن صحیح ہے، اس میں صاف بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ کی ہی حالت میں ایک آنے والے شخص ( سلیک نامی ) کو دو رکعت پڑھنے کا حکم فرمایا تھا۔ بعض ضعیف روایتوں میں مذکور ہے کہ جس حالت میں اس شخص نے دو رکعت ادا کیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا خطبہ بند کر دیا تھا۔ یہ روایت سند کے اعتبار سے لائق حجت نہیں ہے اور بخاری شریف کی مذکورہ حدیث حسن صحیح ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت خطبہ ہی میں اس کے دو رکعت پڑھنے کا ذکر ہے۔ لہذا اس کے مقابلے پر یہ روایت قابل حجت نہیں۔ دیوبندی حضرات فرماتے ہیں کہ آنے والے شخص کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز کا حکم بے شک فرمایا مگر ابھی آپ نے خطبہ شروع ہی نہیں فرمایا تھا۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ حدیث کے راوی حضرت جابر بن عبداللہ جو صاف لفظوں میں النبی صص یخطب الناس یوم الجمعۃ ( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو خطبہ سنا رہے تھے ) نقل فرمارہے ہیں نعوذباللہ ان کا یہ بیان غلط ہے اور ابھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ شروع ہی نہیں فرمایا تھا۔ یہ کس قدر جرات ہے کہ ایک صحابی رسول کو غلط بیانی کامرتکب گردانا جائے اور بعض ضعیف روایات کا سہارا لے کر محدثین کرام کی فقاہت حدیث اور حضرت جابر بن عبداللہ کے بیان کی نہایت بے باکی کے ساتھ تغلیط کی جائے۔ حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس سلسلہ کی دوسری حدیث عبد اللہ بن ابی مسرح سے یوں نقل فرمائی ہے: ان ابا سعید الخدری دخل یوم الجمعۃ ومروان یخطب فقام یصلی فجاءالحرس لیجلسوہ فابی حتی صلی فلما انصرف اتیناہ فقلنا رحمک اللہ ان کادوا لیقعو بک فقال ماکنت لا ترکھما بعد شئی رایتہ من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ثم ذکر ان رجلا جاءیوم الجمعۃ فی ھیئۃ بذۃ والنبی صلی اللہ علیہ وسلم یخطب یوم الجمعۃ فامرہ فصلی رکعتین والنبی صلی اللہ علیہ وسلم یخطب یعنی ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن مسجد میں اس حالت میں آئے کہ مروان خطبہ دے رہا تھا یہ نماز ( تحیۃ المسجد ) پڑھنے کھڑے ہوگئے۔یہ دیکھ کر سپاہی آئے اور ان کو زبردستی نماز سے باز رکھنا چاہا مگر یہ نہ مانے اور پڑھ کر ہی سلام پھیرا، عبد اللہ بن ابی مسرح کہتے ہیں کہ نماز کے بعد ہم نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے ملا قات کی اور کہا کہ وہ سپاہی آپ پر حملہ آور ہونا ہی چاہتے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ میں بھی ان دو رکعتوں کو چھوڑنے والاہی نہیں تھا۔ خواہ سپاہی لوگ کچھ بھی کرتے کیونکہ میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے آپ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ ایک آدمی پریشان شکل میں داخل مسجد ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اسی حالت میں دو رکعت پڑھ لینے کا حکم فرمایا۔ وہ نماز پڑھتا رہا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے۔ دو عادل گواہ!حضرت جابر بن عبد اللہ اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ہر دو عادل گواہوں کا بیان قارئین کے سامنے ہے۔ اس کے بعد مختلف تاویلات یا کمزور روایات کا سہارا لے کر ان ہر دو صحابیوں کی تغلیط کے درپے ہونا کسی بھی اہل علم کی شان کے خلاف ہے۔ حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ آگے فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عیینہ اور حضرت عبد الرحمن مقری ہر دو بزرگوں کا یہی معمول تھا کہ وہ اس حالت مذکورہ میں ان ہر دو رکعتوں کو ترک نہیں کیاکرتے تھے۔ حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس سلسلے کی دیگر روایات کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے جن میں حضرت جابر کی ایک اور روایت طبرانی میں یوں مذکور ہے :عن جابر قال دخل النعمان بن نوفل ورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی المنبر یخطب یوم الجمعۃ فقال لہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم رکعتین وتجوز فیھما فاذا اتی احدکم یوم الجمعۃ والامام یخطب فلیصل رکعتین ولیخففھما کذا فی قوت المعتذی وتحفۃ الاحوذی، ج:2ص:264 یعنی ایک بزرگ نعمان بن نوفل نامی مسجد میں داخل ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن منبر پر خطبہ دے رہے تھے۔ آپ نے ان کو حکم فرمایا کہ اٹھ کر دو رکعت پڑھ کر بیٹھیں اور ان کو ہلکا کر کے پڑھیں اور جب بھی کوئی تمہارا اس حالت میں مسجد میں آئے کہ امام خطبہ دے رہاہو تو وہ ہلکی دو رکعتیں پڑھ کر ہی بیٹھے اور ان کو ہلکا پڑھے۔ حضرت علامہ نووی شارح مسلم شریف فرماتے ہیں:ھذہ الاحادیث کلھا یعنی التی رواھا مسلم صریحۃ فی الدلالۃ لمذھب الشافعی واحمد واسحاق فقھاءالمحدثین انہ اذا دخل الجامع یوم الجمعۃ والامام یخطب یستحب لہ ان یصلی رکعتین تحیۃ المسجد ویکرہ الجلوس قبل ان یصلیھما وانہ یستحب ان یتجوز فیھما یسمع بعد ھما الخطبۃ وحکی ھذا المذھب عن الحسن البصری وغیرہ من المتقدمین ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی ان جملہ احادیث سے صراحت کے ساتھ ثابت ہے کہ امام جب خطبہ جمعہ دے رہا ہو اور کوئی آنے والا آئے تو اسے چاہیے کہ دو رکعتیں تحیۃ المسجد ادا کر کے ہی بیٹھے۔ بغیر ان دو رکعتوں کے اس کا بیٹھنا مکروہ ہے اور مستحب ہے کہ ہلکا پڑھے تاکہ پھرخطبہ سنے۔ یہی مسلک امام حسن بصری وغیرہ متقدمین کا ہے۔ حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ نے دوسرے حضرات کا مسلک بھی ذکر فرمایا ہے جو ان دو رکعتوں کے قائل نہیں ہیں پھر حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنا فیصلہ ان لفظوں میں دیا ہے والقول الاول اصح یعنی ان ہی حضرات کا مسلک صحیح ہے جو ان دو رکعتوں کے پڑھنے کے قائل ہیں۔ اس تفصیل کے بعد بھی اگر کوئی شخص ان دورکعتوں کو ناجائز تصور کرے تو یہ خود اس کی ذمہ داری ہے۔ آخر میں حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کا ارشاد گرامی بھی سن لیجیے آپ فرماتے ہیں: فاذا جاءوالامام یخطب فلیرکع رکعتین ولیتجوز فیھما رعایۃ لسنۃ الراتبۃ وادب الخطبۃ جمیعا بقدر الامکان ولا تغتر فی ھذہ المسالۃ بما یلھج بہ اھل بلدک فان الحدیث صحیح واجب اتباعہ ( حجۃ اللہ البالغۃ، جلد:دومص:101 ) یعنی جب کوئی نماز ی ایسے حال میں مسجد میں داخل ہو کہ امام خطبہ دے رہا ہو تو دو رکعت ہلکی خفیف پڑھ لے تاکہ سنت راتبہ اور ادب خطبہ ہر دو کی رعایت ہو سکے اور اس مسئلہ کے بارے میں تمہارے شہر کے لوگ جو شور کرتے ہیں اور ان رکعتوں کے پڑھنے سے روکتے ہیں؟ ان کے دھوکا میں نہ آنا کیونکہ اس مسئلہ کے حق میں حدیث صحیح وارد ہے جس کا اتباع واجب ہے وبا للّٰہ التوفیق۔