كِتَابُ العِلْمِ بَابُ مَنْ بَرَكَ عَلَى رُكْبَتَيْهِ عِنْدَ الإِمَامِ أَوِ المُحَدِّثِ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ، فَقَامَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُذَافَةَ فَقَالَ: مَنْ أَبِي؟ فَقَالَ: «أَبُوكَ حُذَافَةُ» ثُمَّ أَكْثَرَ أَنْ يَقُولَ: «سَلُونِي» فَبَرَكَ عُمَرُ عَلَى رُكْبَتَيْهِ فَقَالَ: رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالإِسْلاَمِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبِيًّا فَسَكَتَ
کتاب: علم کے بیان میں
باب: شاگرد کا دو زانو ہو کر ادب سے بیٹھنا
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انھیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انھیں انس بن مالک نے بتلایا کہ ( ایک دن ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلے تو عبداللہ بن حذافہ کھڑے ہو کر پوچھنے لگے کہ حضور میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : حذافہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار فرمایا کہ مجھ سے پوچھو، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دو زانو ہو کر عرض کیا کہ ہم اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہیں ( اور یہ جملہ ) تین مرتبہ ( دہرایا ) پھر ( یہ سن کر ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔
تشریح :
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عرض کرنے کی منشا یہ تھی کہ رب، اسلام کو دین اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی مان کر اب ہمیں مزید کچھ سوالات پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ لوگ عبداللہ بن حذافہ کو کسی کا بیٹا کہا کرتے تھے۔ اسی لیے انھوں نے آپ سے اپنی تشفی حاصل کرلی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دوزانو ہوکر بیٹھنے سے ترجمہ باب نکلا اور ثابت ہوا کہ شاگرد کو استاد کا ادب ہمہ وقت ملحوظ رکھنا ضروری ہے کیونکہ باادب بانصیب بے ادب بے نصیب، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مؤدبانہ بیان سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ جاتا رہا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عرض کرنے کی منشا یہ تھی کہ رب، اسلام کو دین اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی مان کر اب ہمیں مزید کچھ سوالات پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ لوگ عبداللہ بن حذافہ کو کسی کا بیٹا کہا کرتے تھے۔ اسی لیے انھوں نے آپ سے اپنی تشفی حاصل کرلی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دوزانو ہوکر بیٹھنے سے ترجمہ باب نکلا اور ثابت ہوا کہ شاگرد کو استاد کا ادب ہمہ وقت ملحوظ رکھنا ضروری ہے کیونکہ باادب بانصیب بے ادب بے نصیب، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مؤدبانہ بیان سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ جاتا رہا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے۔