كِتَابُ الجُمُعَةِ بَابُ مَنْ قَالَ فِي الخُطْبَةِ بَعْدَ الثَّنَاءِ: أَمَّا بَعْدُ صحيح - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ الحَسَنَ، يَقُولُ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ تَغْلِبَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِمَالٍ - أَوْ سَبْيٍ - فَقَسَمَهُ، فَأَعْطَى رِجَالًا وَتَرَكَ رِجَالًا، فَبَلَغَهُ أَنَّ الَّذِينَ تَرَكَ عَتَبُوا، فَحَمِدَ اللَّهَ، ثُمَّ أَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: «أَمَّا بَعْدُ فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأُعْطِي الرَّجُلَ، وَأَدَعُ الرَّجُلَ، وَالَّذِي أَدَعُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنَ الَّذِي [ص:11] أُعْطِي، وَلَكِنْ أُعْطِي أَقْوَامًا لِمَا أَرَى فِي قُلُوبِهِمْ مِنَ الجَزَعِ وَالهَلَعِ، وَأَكِلُ أَقْوَامًا إِلَى مَا جَعَلَ اللَّهُ فِي قُلُوبِهِمْ مِنَ الغِنَى وَالخَيْرِ، فِيهِمْ عَمْرُو بْنُ تَغْلِبَ» فَوَاللَّهِ مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي بِكَلِمَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حمر النعم
کتاب: جمعہ کے بیان میں
باب: خطبہ میں حمد و ثنا کے بعد امابعد کہنا
ہم سے محمد بن معمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابو عاصم نے جریر بن حازم سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے امام حسن بصری سے سنا، انہوں نے بیان کیاکہ ہم نے عمرو بن تغلب رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ مال آیا یا کوئی چیز آئی۔ آپ نے بعض صحابہ کو اس میں سے عطا کیا اور بعض کو کچھ نہیں دیا۔ پھر آپ کو معلوم ہوا کہ جن لوگوں کو آپ نے نہیں دیا تھا انہیں اس کا رنج ہوا، اس لیے آپ نے اللہ کی حمد وتعریف کی پھر فرمایا اما بعد! خدا کی قسم میں بعض لوگوں کو دیتا ہوں اور بعض کو نہیں دیتا لیکن میں جس کو نہیں دیتا وہ میرے نزدیک ان سے زیادہ محبوب ہیں جن کو میں دیتا ہوں۔ میں تو ان لوگوں کو دیتا ہوں جن کے دلوں میں بے صبری اور لالچ پاتا ہوں لیکن جن کے دل اللہ تعالی نے خیر اور بے نیاز بنائے ہیں، میں ان پر بھروسہ کر تاہوں۔ عمرو بن تغلب بھی ان ہی لوگوں میں سے ہیں۔ خدا کی قسم میرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ایک کلمہ سرخ اونٹوں سے زیادہ محبوب ہے۔
تشریح :
سبحان اللہ صحابہ کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک حکم فرمانا، جس سے آپ کی رضامندی ہو، ساری دنیا کا مال ودولت ملنے سے زیادہ پسند تھا، اس حدیث سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال خلق ثابت ہوا کہ آپ کسی کی ناراضگی پسند نہیں فرماتے تھے نہ کسی کی دل شکنی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا خطبہ سنایا کہ جن لوگوں کو نہیں دیا تھا وہ ان سے بھی زیادہ خوش ہوئے جن کو دیا تھا ( وحیدی ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں بھی لفظ اما بعد! استعمال فرمایا۔ یہی مقصود باب ہے۔
سبحان اللہ صحابہ کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک حکم فرمانا، جس سے آپ کی رضامندی ہو، ساری دنیا کا مال ودولت ملنے سے زیادہ پسند تھا، اس حدیث سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال خلق ثابت ہوا کہ آپ کسی کی ناراضگی پسند نہیں فرماتے تھے نہ کسی کی دل شکنی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا خطبہ سنایا کہ جن لوگوں کو نہیں دیا تھا وہ ان سے بھی زیادہ خوش ہوئے جن کو دیا تھا ( وحیدی ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں بھی لفظ اما بعد! استعمال فرمایا۔ یہی مقصود باب ہے۔