كِتَابُ العِلْمِ بَابُ الغَضَبِ فِي المَوْعِظَةِ وَالتَّعْلِيمِ، إِذَا رَأَى مَا يَكْرَهُ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ العَلاَءِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَشْيَاءَ كَرِهَهَا، فَلَمَّا أُكْثِرَ عَلَيْهِ غَضِبَ، ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ: «سَلُونِي عَمَّا شِئْتُمْ» قَالَ رَجُلٌ: مَنْ أَبِي؟ قَالَ: «أَبُوكَ حُذَافَةُ» فَقَامَ آخَرُ فَقَالَ: مَنْ أَبِي يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ: «أَبُوكَ سَالِمٌ مَوْلَى شَيْبَةَ» فَلَمَّا رَأَى عُمَرُ مَا فِي وَجْهِهِ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا نَتُوبُ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ
کتاب: علم کے بیان میں
باب:اس بیان میں کہ استاد شاگردوں کی جب کوئی ناگوار بات دیکھے تو وعظ کرے اور تعلیم دیتے وقت ان پر خفا ہو سکتا ہے
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، ان سے ابواسامہ نے برید کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابوبردہ سے اور وہ ابوموسیٰ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ ایسی باتیں دریافت کی گئیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا معلوم ہوا اور جب ( اس قسم کے سوالات کی ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت زیادتی کی گئی تو آپ کو غصہ آ گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا ( اچھا اب ) مجھ سے جو چاہو پوچھو۔ تو ایک شخص نے دریافت کیا کہ میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تیرا باپ حذافہ ہے۔ پھر دوسرا آدمی کھڑا ہوا اور اس نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیرا باپ سالم شبیہ کا آزاد کردہ غلام ہے۔ آخر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کے چہرہ مبارک کا حال دیکھا تو عرض کیا یا رسول اللہ! ہم ( ان باتوں کے دریافت کرنے سے جو آپ کو ناگوار ہوں ) اللہ سے توبہ کرتے ہیں۔
تشریح :
لغو اور بے ہودہ سوال کسی صاحب علم سے کرنا سراسرنادانی ہے۔ پھر اللہ کے رسول اسے اس قسم کا سوال کرنا توگویا بہت ہی بے ادبی ہے۔ اسی لیے اس قسم کے بے جاسوالات پر آپ نے غصہ میں فرمایاکہ جو چاہو دریافت کرو۔ اس لیے کہ اگرچہ بشرہونے کے لحاظ سے آپ غیب کی باتیں نہیں جانتے تھے۔ مگراللہ کا برگزیدہ پیغمبرہونے کی بنا پر وحی والہام سے اکثراحوال آپ کو معلوم ہوجاتے تھے، یا معلوم ہوسکتے تھے جن کی آپ کو ضرورت پیش آتی تھی۔ اسی لیے آپ نے فرمایا کہ تم لوگ نہیں مانتے ہو تواب جوچاہو پوچھو، مجھ کو اللہ کی طرف سے جو جواب ملے گا تم کو بتلاؤں گا۔ آپ کی خفگی دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیگرحاضرین کی نمائندگی فرماتے ہوئے ایسے سوالات سے باز رہنے کا وعدہ فرمایا۔
لغو اور بے ہودہ سوال کسی صاحب علم سے کرنا سراسرنادانی ہے۔ پھر اللہ کے رسول اسے اس قسم کا سوال کرنا توگویا بہت ہی بے ادبی ہے۔ اسی لیے اس قسم کے بے جاسوالات پر آپ نے غصہ میں فرمایاکہ جو چاہو دریافت کرو۔ اس لیے کہ اگرچہ بشرہونے کے لحاظ سے آپ غیب کی باتیں نہیں جانتے تھے۔ مگراللہ کا برگزیدہ پیغمبرہونے کی بنا پر وحی والہام سے اکثراحوال آپ کو معلوم ہوجاتے تھے، یا معلوم ہوسکتے تھے جن کی آپ کو ضرورت پیش آتی تھی۔ اسی لیے آپ نے فرمایا کہ تم لوگ نہیں مانتے ہو تواب جوچاہو پوچھو، مجھ کو اللہ کی طرف سے جو جواب ملے گا تم کو بتلاؤں گا۔ آپ کی خفگی دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیگرحاضرین کی نمائندگی فرماتے ہوئے ایسے سوالات سے باز رہنے کا وعدہ فرمایا۔